
اسلام آباد: کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کہا ہے کہ کسی بھی انتخابی عمل کا جموں و کشمیر کے تنازعہ کے مستقبل کے حل پر براہ راست یا بالواسطہ کوئی اثر نہیں ہے۔
آزاد مبصرین اور بین الاقوامی میڈیا کی غیر موجودگی میں ہندوستان کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر میں منعقد ہونے والے لوک سبھا انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے، کشمیر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے کہا، "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیر میں انتخابی عمل کسی بھی صورت میں تنازعہ کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کےحل کو کسی صورت بھی متاثر نہیں کرتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 122 (1957) میں کہا گیا ہے کہ "ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کیا جائے گا۔۔”
وانی نے کہا، قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس” کی جنرل کونسل کی سفارش کے مطابق آئین ساز اسمبلی کا بلایا جانا اور کوئی بھی ایسا اقدام جسے اسمبلی پوری ریاست کی مستقبل کی شکل اور وابستگی کا تعین یا اس کے کسی حصے کو کسی ریاست میں ضم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، قابل قبول نہیں ہوگا۔
، انہوں نے کہا، یو این ایس سی نے 24 جنوری 1957 کی اپنی قرارداد 122 میں بھی نوٹ کیا ہے، کہ بھارت کی جعلی انتخابی مشقیں اس کی قراردادوں کے ذریعے تصور کردہ غیر جانبدارانہ رائے شماری کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اقوام متحدہ کی قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے کسی بھی انتخابات سے ریاست کے حتمی اختیار کو متاثر نہیں کیا جا سکتا یا اس کا تنازعہ یا اس کے حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔”
انہوں نے واضح کیا کہ انتخابات کا انعقاد ہمیشہ اس مقصد سے ہوتا ہے کہ لوگوں کو منظم زندگی فراہم کرنے کے لیے حکومت کرنے کے لیے انتظامیہ قائم کی جائے۔
وانی نے کہا، "کسی خاص علاقے یا لوگوں کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے، اگر اور جب اس پر اختلاف ہو، تو آپ انتخابات نہیں کرواتے بلکہ رائے شماری کراتے ہیں”، وانی نے کہا، انتخابات کے برعکس رائے شماری کسی قوم کی پوری زندگی میں ایک بار منعقد کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکمران جو انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں انتخابات اور ریفرنڈم کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم ایک ایسے خطے میں منعقد کیا جاتا ہے جہاں عوام کی امنگوں کا تعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کشمیر کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے کے آئی آئی آر کے سربراہ نے کہا کہ اس مسئلہ پر حریت کا موقف بالکل واضح ہے کہ بندوق کے سائے میں ہونے والے نام نہاد انتخابات رائے شماری کا متبادل نہیں ہو سکتے۔
انتخابی عمل کے حوالے سے کشمیر کو ایک تنازعہ کے طور پر زیر بحث لاتے ہوئے، انہوں نے واضح کیا کہ انتخابی عمل میں عوام کی شرکت یا عوام کی طرف سے ووٹنگ کا کوئی بھی انداز چاہے وہ تیز ہو یا سست ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل کو عوام کی شکایات اور مسائل کے حوالے سے دیکھنا ہوگا۔
ان انتخابات کا مقصد عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت یا مقامی انتظامیہ قائم کرنا ہے۔ یو این ایس سی کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، "کوئی بھی حکومت کسی ریاست کے مستقبل کا حتمی ثالث ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی”۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت ریاست کے عوام ہی اس کے حتمی ثالث ہیں۔
وانی نے کہا، "یہ کشمیر کے لوگ ہیں جو اپنی تقدیر کے معمار ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے رائے دہندگان نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی کے حق میں اور نہ ہی کسی کے خلاف بلکہ صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں تاکہ ان کے مسائل اور شکایات کو دور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ تنازعہ کشمیر کی جب ہم بات کرتے ہیں تو یہ ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کو انتخابی عمل سے نہ جھوڑا جایے۔
انہوں نے کہا کہ اے پی ایچ سی جو کشمیری عوام کی ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے پہلے ہی یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات ایک نان ایشو ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حریت نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ جہاں تک تنازعہ کشمیر کے حتمی تصفیے کا تعلق ہے انتخاب اس کا جواب نہیں اور نا ہی یہ مسئلے کا کوئی مستقل حل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر میں حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ کشمیر پر بے بنیاد بیانیہ یا انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کے ذریعے عالمی برادری کو مزید دھوکا نہیں دے سکتے۔
وانی نے کہا کہ "اس دیرینہ تنازعہ کے حل کے ذریعے ہی ہم جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے ایک روشن مستقبل اور ایک بہتر خطہ کو یقینی بنا سکیں گے۔”