
پاکستان میں عیدالفطر کے بعد محرم سے پہلے تک کے عرصے کو اگر شادیوں کا سیزن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔۔یوں اس وقت شادیوں کا سیزن اپنے بھرپور جوبن پر ہے۔ آج کل شادیوں میں آپ کو ایک عجیب ٹرینڈ ضرور دیکھنے کو ملے گا۔
سجی سنوری دلہن نے ایک سرخ دوپٹہ اوڑھا ہوا ہےجس پر اس کے دلہے کا نام تحریر ہے۔۔۔۔فلاں کی دلہن۔۔۔۔دلہن کے ملکیتی حقوق اپنے نام محفوظ کرنے کا یہ اعلان نہایت ہی مضحکہ خیز ہے۔
عید قرباں پر بھی اس سے ملتی جلتی ایک تحریر نظروں سے گزرتی ہے۔۔اکثر بچے اپنے بکرے یا گائے پر مہندی سے اپنا نام لکھ دیتے ہیں۔۔۔فلاں کی گائے۔
بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کی حد تک تو یہ بات کوئی بڑی بات نہیں لیکن ایک جیتی جاگتی سجی سنوری دلہن کے حوالے سے نہ تو یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ شادی کی پُر ہجوم تقریب میں وہ کہیں کھو جائے گی یا رسہ تڑوا کر بھاگ جائے گی نہ ہی تقریب میں شریک کوئی مہمان دلہا میاں کے نام سے لاعلم ہوتا ہے کیونکہ شادی کے کارڈز پر دلہن کا نام ہو یا صرف دختر نیک اختر لکھا ہو لیکن دلہے میاں کا نام سنہری حروف میں ضرور لکھا جاتا ہے۔
رہا یہ جواز کہ یہ دوپٹہ دلہن کو دیگر خواتین سے ممتاز کرتا ہے توپہلی بات تو یہ کہ شادی کی تقریب میں اگر ہزاروں خواتین بھی شریک ہوں تو اس میں سے دلہن کو پہچاننا چنداں مشکل نہیں کیونکہ دلہن اپنے روایتی لباس بھاری اور مہنگے لہنگے اور زیورات سے لدی ہونے کے باعث دور سے ہی با آسانی پہچانی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رنگین دوپٹہ دلہن کو دلہے کا نہیں بلکہ اپنے ہی گھر والوں کا تحفہ ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ وہ سب کس جذبے کے تحت اپنی بیٹی کو ایک”شے”سمجھ کر اس کے جملہ حقوق دلہا کے حق میں محفوظ کرنے کا اشتہار دیتے ہیں۔
منکوحہ کو منقولہ جائیداد سمجھنے کا یہ خیال کیوں پروان چڑھ رہا ہے اس کے پیچھے کارفرما نفسیاتی عوامل پر بھی غور کرنا ہوگا۔دلہن کو دلہا کی ملکیت سمجھنے والی یہ سوچ اگر ایک طرف پدرسری نظام کی عکاسی ہے تو دوسری طرف ایک عورت کی طرف سے مردوں کے معاشرے میں پنپنے کے لیے”خود سپردگی” کا جذبہ ہے۔ اگر مذہب کا رخ کریں تو اسے ”بہشتی زیور” کے اثرات بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک زمانے تک دلہن کو جہیز میں دی جانے والی اس کتاب کا حاصل بھی یہی ہے کہ عورت مرد کی ملکیت ہے اور اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف مرد کو خوش کرنا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
اگرچہ دلہا کی ملکیت کا اعلان کرتا یہ رنگین دوپٹہ ذرا سی دیر کے لیے ہی اوڑھا جاتا ہے لیکن یہ عمر بھر کے لیے ایک بات کا اعلان ضرور کردیتا ہے کہ ”یہ گائے کس کی ہے‘