
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ حالیہ حملوں اور تشدد کی وجہ سے 45 ہزار روہنگیا مسلمان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں
مغربی ریاست رخائن میں حالیہ دنوں میں میانمار فوج اور اراکن آرمی (اے اے) کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کرلی ہے، جس نے علاقے میں رہنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔روہنگیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے پورے قصبے میں زبردست آگ لگی ہے۔ وہ اراکن آرمی پر آتش زنی کا الزام لگا رہے ہیں
فری روہنگیا کولیشن ایڈوکیسی گروپ کے شریک بانی، نی سان لوئن نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’ابھی تک، لوگ محفوظ جگہ کی تلاش میں سڑک پر ہیں۔ یہاں کوئی خوراک یا دوا نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر اپنا ذاتی سامان نہیں لے جا سکے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اراکن آرمی ایک نسلی مسلح گروہ ہے جو رخائن میں واقع ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے تقریباً تیس ہزار مسلح ارکان ہیں جو یونائیٹڈ لیگ آف اراکن کی مسلح شاخ ہے۔ یہ رخائن کی اکثریتی بدھ مذہب کی نمائندگی کرتا ہے اور اراکن کے لوگوں کیلئے خود مختاری چاہتا ہے، جو ریاست کا پرانا نام ہے۔ جس نے گزشتہ سال نومبر تک فوج کے ساتھ عارضی جنگ بندی کی تھی
روہنگیا ذرائع کی اطلاع ہے کہ اٹھارہ مئی سے ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں نے وسطی بوتھیڈانگ میں تحفظ گاہ کی تلاش کی ہے۔ مکانات، سرکاری عمارتوں ، ایک اسپتال اور اسکولوں سمیت کسی بھی دستیاب جگہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ کم از کم چار مختلف ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ روہنگیا کو گھروں سے فرار ہونے کیلئے مجبور کیا گیا۔