
کوئی انقلابی شاعر ہے ،کوئی وزیر اعظم ہے،کوئی بڑا کھلاڑی ہے چاہے ،کوئی جتنے بھی بڑے عہدے پر ہے لیکن اپنی ماں کے لیے بچہ ہی ہے ۔احمد فرہاد جو کچھ عرصہ پہلے منظر عام پر آئے اور ان کی انقلابی شاعری جو دلوں کو چھو جانے والی ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم بھی دیا لیکن ان کی رہائی نہ ہو سکی ۔اب ایک ماں کے لیے اس سے زیادہ کرب کی صورتحال کیا ہو گی ،کہ اس کا بچہ پابند سلاسل ہے اور وہ بے چین ہر پل اپنے بچے کی کانوں میں گونجتی آواز لیکر بے بس پھر رہی ہو۔
اسلام آباد پریس کلب کے باہر مظاہرے میں احمد فرہاد کی والدہ آبدیدہ ہوگئیں۔وہ کچھ بولیں تو نہیں لیکن شاید ایک آواز ان کے کانوں میں بار بار گونج رہی ہو ،اے ماں
یہ کرب وہی محسوس کر سکتا ہے جو جنت قدموں میں لیے ان دوزخ داروغوں کے سامنے سینہ سپر ہو ،اور اپنے بچے کی آواز کو ایک بار پھر سننا اور اس کی معصوم شکل دیکھنا چاہتی ہو ۔
لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی ماں کو سہارا دینے والے کافی تھے ادھر لیکن وہ آنکھوں میں آنسو لیےشکوہ کناں نظروں سےکبھی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں تو کبھی اس سسٹم کی زبوں حالی پر ہنس رہی تھیں ۔
دوسرے لوگوں کے لیے تو یہ ایک پروٹیسٹ ہو گا ۔کسی یو ٹیوبر کے لیے ویوز والی ایک سٹوری ہو گی ؟لیکن ماں کے کی ممتا تو صرف بچے کی ایک جھلک کے لیے تڑپ رہی تھی ۔
بہرحال یہ احوال تھے کچھ پریس کلب کے باہر ایک بوڑھی ماں جو بچے کے لیے تڑپ او سسک رہی تھی ۔اب پولیس ہو یا قانون نافظ کرنے والے ادارے وہ بھی اسے ایک عام مسنگ پرسن کے طور پر ٹریٹ کر رہےہوں گے
لیکن "اے ماں”یہ دو الفاظ اس بوڑھی ماں کو شل سے کر دیتےہوں گے ۔