
بانی پی ٹی آئی کا مکالمہ
بانی پی ٹی آئی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں ، نیب کو بہتر ہونا چاہیے ، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے ،مزید کہا کہ میں جیل میں ہی ہوں ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا ، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے ملک کو کچھ ہوا تو سیاست دان زمہ دار ہوں گے ۔۔۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ اس وقت جیل میں ہیں یہ بدقسمتی ہے، آپ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں اور لاکھوں فاولورز ہیں آپ کی جماعت کے ، جس پر بانی پی ٹی آئی بولے سپریم کورٹ میری آخری امید ہے ۔
کیس کی سماعت کا احوال
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔دوران دلائل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔چیف جسٹس بولے آپ معروضات عدالت میں جمع کرائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔
عدلیہ کی معاونت کے لیے بلائے گئے وکیل خواجہ حارث بھی عدالت پیش ہوئے ، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا؟ وجہ بتائیں۔ خواجہ حارث بولے جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں طے ہو چکا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں نا؟
خواجہ حارث کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں پلی بارگین ہوئی تھی یا رضاکارانہ رقم واپسی؟ 460 ارب روپے کے عوض سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کردیے تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگرتمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کیا کوئی اعتراض ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی کے حوالے سے تھیں، سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس ترپن سماعتوں میں سنا گیا۔
۔واضع رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ عدالت نے مختلف سماعتوں کے بعد آج فیصلہ محفوظ کرلیا۔