
تحریر ۔۔۔۔ مہتاب عزیز
بھارتی انتخابات دوہزار چوبیس میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی صرف 240 سیٹیں حاصل کر پائی ہے۔ یعنی اس بار حکمراں بی جے پی 543 رکنی بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
واضع رہے کہ اس سے قبل بی جے پی نے 2014 کے انتخابات میں 282 اور 2019 کے انتخاب 303 نشستیں جیت کر تنہا حکومت بنائی تھی۔
اگرچہ مودی کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے امکانات ابھی مکمل ختم نہیں ہوئے، تاہم اس کے لیے اُنہیں دو بڑی حلیف جماعتوں صوبہ بہار سے 16 سیٹیں جیتنے والی "جنتا دل یونائیڈ” اور آندھرا پردیش کی 12 نشستوں پر کامیابی سمیٹنے والی”تیلگو دیشم پارٹی” پر انحصار کر نا پڑے گا۔
یہاں دلچسب امر یہ بھی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے سربراہاں یعنی "چندرا بابو نائیڈو” اور "نتیش کمار” ماضی میں کانگریس کے اتحادی رہ چکے ہیں۔ اس بار بھی کانگریس کی سربراہی میں قائم اپوزیشن اتحاد "انڈیا” ان جماعتوں کو بی جے پی سے بہتر آفر دینے کا عندیہ دے چکا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اپوزیشن کے ان رہنماوں سے مذاکرات جاری ہیں۔
دوسری جانب امکانات ہیں کہ مودی آئندہ ہفتے کے روز تیسری مرتبہ حلف اٹھا کر جواہر لال نہرو کے تین بار وزیر اعظم بننے کے ریکارڈ کو برابر کرلیں۔ البتہ ایسا کرنے صورت میں وہ سیاسی لحاظ سے پہلے کے مقابلے بہت ہی کمزور ہوں گے۔
دو تہائی اکثریت سے بہت دور رہ جانے کے بعد، "ہندو راشٹر، یکساں سول کوڈ، ہندی قومی زبان بنانے اور ملکی آئین میں تبدیلی” جیسے اعلان کردہ اقدامات کے تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اتحادی پارٹیوں، جن کے اپنے مفادات ہیں، کی طرف سے دباو کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ مزید یہ کہ وہ اپنے فنانسرز کے لیے لیبر قوانین اور کسان مخالف اقدامات کرنے سے بھی قاصر ہونگے۔ جس کی وجہ سے اُنہیں دولت کے زور پر میسر سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی ویسی حمایت بھی دستیاب نہیں ہوگی۔
نتائج کے اعلانات کے درمیان ہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کے ووٹروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مل کر اور اتحاد بنانے کے باوجود اتنی سیٹیں نہیں لاسکتی جتنا بی جے اتحاد لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ انہوں نے اسے ایک "بڑا منگل” (بڑی فتح) قرار دیا۔
ایک دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے، وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں بی جے پی کے ہیڈکوارٹر میں پارٹی کارکنوں سے "فتح” کے خطاب میں نہ حسب روایت "رام” کا نام لیا اور نہ ہی اُس "مودی کی گارنٹی’ کا ذکر کیا جو پورے انتخابات کے دوران انکا تکیہ کلام تھا۔
یہاں تک کہ پہلی بار بی جے پی کے اسٹیج کی پشت پر نصب بینر کے اوپر اردو میں ‘شکریہ بھارت’ اور ‘مھربانی ہندوستان’ لکھا ہوا تھا۔
بھارت کے اکثر سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے نہ صرف نوٹ کیا، بلکہ وہ اسے انتخابی نتائج کا "واضح اثر” قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اس ناکامی نے مودی کی نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔