
تحریر: ڈ اکٹر محمد صغیر خان
یہ پرسوں نہیں، دہائیوں پرانی بات اور میرے لڑکپن کا قصہ ہے جب مکرمی سیّدضمیر جعفری، جناب عطاء الحق قاسمیؔ، محترم امجد اسلام امجد مرحوم اور ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم ادبی تقریبات میں شرکت کے لئے راولاکوٹ تشریف لائے تھے۔ راولاکوٹ میں ہونے والی پے در پے تقریبات، جو بلاشبہ ’’کھڑکی توڑ‘‘ بھی تھیں، سے فراغت کے بعد متذکرہ بالا احباب نے بنجونسہ کی یاترا بھی کی تھی۔ تب کا بنجونسہ، جھیل اور آس پاس کا خوبصورت جنگل آج کی طرح کا ’’مصروف‘‘ اور ’’مضروب‘‘ ہرگز نہیں تھا۔
قدرتی حسن سے مالامال یہ ’’قطعہ اراضی‘‘ کچھ ایسا مونہہ مہاندرا رکھتا تھا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ میں کھُب کھُب سا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نامور ادیبوں و شاعروں کا لطیفہ باز اور قہقہہ یار گروہ جب یہاں پہنچا تو دیر تک گم سم بیٹھے اسے دیکھتے رہے۔ کافی وقت حظ اور لطف لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ کھُن کے بن کو کھنگالا جائے اور جنڈالی کے ڈنے سے پونچھ شہر کی دید کی سبیل کی جائے۔ اب چڑھائی تھی اور شہری بابو کی مشقت، وہ تھکے ہانپتے چڑھتے جا رہے تھے اور لطیفے سناتے قہقہے بکھیرتے وقت کے لحاظ سے ’’موج مستی‘‘ کا اظہار کر رہے تھے۔ کچھ اوپر جاکر سیّد ضمیر جعفری جو کافی ’بڈھیر‘ بھی تھے اور ’بھاری‘ بھی، کچھ زیادہ ہی تھک گئے۔
ایک جگہ بیٹھ کر سستاتے ہوئے جب ان کی سانسیں ذرا درست ہوئیں تو اُنہوں نے ڈاکٹر اجمل نیازی کی ڈیوٹی لگائی کہ اب آنے اور رستے میں ملنے والے لوگوں کو سلام کا جواب تم نے دینا ہے۔ اجمل نیازی کچھ دیر یہ فریضہ بخیر انجام دیتے رہے لیکن پھر ان کی حالت بھی ’’دیدنی‘‘ ہو گئی۔ اب چڑھائی کا اکثر حصہ چڑھتے اجمل نیازی پائوں کے علاوہ ہاتھوں کا بھی پورا استعمال کرتے۔ اجمل نیازی کے لمبے گیسو، گھنی داڑھی اوپر سے ہاتھ اور پائوں زمین پر گاڑھے… غالباً عطاء الحق قاسمی نے انہیں اس حال میں دیکھا تو بے ساختہ کہا ’’دیکھ اجمل اپنے ماضی کی طرف لوٹ گیا ہے‘‘۔ اب وہ زور کا قہقہہ پڑا کہ جنگل میں جنگل سا ہوا اور آس پاس کے درختوں سے پرندوں کے ڈار کے ڈار اُڑ گئے۔ بنجونسہ یاترا کے بعد رات تھکے ہارے یہ ’’مسافر‘‘ دیر تک بنجونسہ کے حسن کے قصیدے کہتے رہے۔
یہ بھی اس سے چند ہی برس بعد کی بات ہے کہ معروف مزاح گو شاعر پروفیسر انور مسعود اپنی فیملی کے ساتھ راولاکوٹ کچھ دن ہمارے ساتھ رہنے تشریف لائے۔ ان کے بنجونسہ کے سفر میں میں ان کا ہمراہی تھا۔ تب کا بنجونسہ بھی اب کا بنجونسہ نہیں تھا۔ انورمسعود اپنے ہمرائیوں سے الگ ہو کر دیر تک جھیل کنارے جنگل میں گھومتے رہے۔ جب وہ واپس آئے تو اُنہوں نے کہا کہ معطر ہوا کیا ہوتی ہے؟ یہ راز میں نے آج پایا۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ میرا گمان ہے کہ میں زندگی کے بہترین اشعار بنجونسہ میں کہے ہیں۔
ہاں مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ قریب دو دہائیاں قبل حکومتی سطح پر جب بنجونسہ کے حسن کو نکھارنے کے لئے ایک کمیٹی بنی تو ’’غلط بخشی‘‘ کے طور پر میں بھی اس کا حصہ تھا۔ اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے۔ وہاں بے شمار تجاویز سامنے آئیں۔ میں نے بساط بھر مور دیا کہ بنجونسہ جھیل کو صاف کیا جائے اور اس کی تہہ اور اطراف میں پتھر لگایا جائے نیز جھیل کے ’’مولاچھ‘‘ کی طرف پانی کو فلٹر کرنے کا کوئی اہتمام کیا جائے تاکہ پانی صاف اور نیلگوں ہو۔ اس وقت کے چیف سیکرٹری نے میری تجاویز کو اچھے سے سنا اور ان پر عمل کی بات بھی کی۔ بعد میں جھیل کو مشینوں سے صاف ضرور کیا گیا لیکن باقی اقدامات نہ ہو سکے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے کچھ سال قبل بنجونسہ جھیل کے آلے دوالے ہوئی بے محابہ تعمیرات پر بھی سوال اٹھایا تھا اور لکھا تھا کہ بنجونسہ کا اصل حسن کنکریٹ کے جنگل میں نہیں، ہرے بھرے درختوں، سبزے اور شادابی میں ہے… اس پر مجھے سخت ’’لعن طعن‘‘ کیا گیا کہ میں بنجونسہ کی ترقی کا دشمن ہوں۔
ماضی کی باتیں جانے دیں۔ آج جب بنجونسہ جھیل ایک بے حد مشہور اور معروف تفریحی مقام ہے، ایسے میں اس کی ’’بدحالی‘‘ کو دیکھ سوچ کر دل کڑتا ہے کہ بنجونسہ ہم سب کا وہ چہرہ ہے جسے دیکھنے ہر روز سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ دوردراز سے یہاں آتے ہیں۔ ایسے میں ’’میلا گندہ چہرہ‘‘ کیا تاثر چھوڑتا ہو گا؟ اس کی تفہیم اور ادراک کوئی مشکل امر نہیں۔
اب بنجونسہ چاردانگ عالم مشہور ہے، ایسے میں ’’بنجونسہ‘‘ کے حسن اور خوبصورتی کا احساس، اہتمام و تحفظ ایک اہم ضرورت ہے۔ زیادہ کے بجائے تھوڑی کہنے کو کافی سمجھتے ہوئے ہمیں بنجونسہ کو بچانے کیلئے کچھ اقدامات بہرحال اٹھانے ہوں گے۔
۱۔ بنجونسہ جھیل اور اردگرد صفائی کا معقول اہتمام کیا جائے۔ صفائی کے لئے مقامی مین پائور کو استعمال کیا جائے اور اس کے اخراجات بھی مقامی طور پر بہم کیے جائیں۔
۲۔ بنجونسہ سیر کے لئے آنے والوں کیلئے پارکنگ کا انتظام مرکزی سیاحتی مقام سے ذراہٹ کر کیا جائے۔ یہ پارکنگ بامعاوضہ ہو، یہ معاوضہ جھیل اور اردگرد کی صفائی کے لئے شافی ہو سکتا ہے۔
۳۔ بنجونسہ جھیل کے نزدیک نجی و سرکاری تعمیراتی عمل کو روکا جائے۔ تعمیراتی کوڈ وضع کیا جائے۔
۴۔ یہاں ہونے والی تعمیراتی عمل کو تاریخی طرزِتعمیر اور ثقافتی ورثے کا جدید روپ بنایا جائے۔
۵۔ جھیل کے قریب لگے جھولے جو بدوضع اور ازکار رفتہ ہیں، انہیں جدت آمیز کیا جائے اور ذرا سا ہٹ کر نصب کیا جائے۔
۶۔ سیاحوں کے لئے جدید اور صاف ستھرے واش رومز بنائے جائیں۔
۷۔ مقامی طور پر موجود ریسٹ ہائوسز، ہوٹلوں اور ٹک شاپس کو کسی ضابطے میں لایا جائے۔
۸۔ جھیل کے پانی کو جدید ذرائع استعمال کرکے صاف کیا جائے۔
۹۔ جھیل کی نچلی سطح پر پتھر یا ٹائلز لگائی جائیں۔ یہ کام پانی کے عارضی اخراج کے بعد محض چند روز میں کیا جا سکتا ہے اور یہ سب کسی بھی طور ناممکن نہیںہے۔
۱۰۔ جھیل سے نیچے والے نالے کے ساتھ ٹریک بنایا جائے اور مناس جگہوں پر چھوٹی چھوٹی مزید مصنوعی جھیلیں بنائی جئیں۔
۱۱۔ اردگرد کے جنگل میں خوبصورت ٹریک بنایا جائے اور سیاحوں کے بیٹھنے کے لئے معقول انتظام کیا جائے۔
۱۲۔ جنڈالی ٹاپ اور دوسری طرف چڑیاگھر تک جانے والی سڑک کو بہتر بنایا جائے۔
۱۳۔ جھیل کے اردگرد بوری بازار یا مچھلی منڈی نا بسائی جائے بلکہ ضرورت کی اشیاء کے لئے ’’مارٹ‘‘ یا دوسرے بے حد ضروری کاروبار کسی ضابطے کے تحت جاری رکھے جائیں۔
بنجونسہ، ایک دنیا میں اب ہم سب کی پہچان ہے، کو بہتر سے بہتر یوں بنایا جائے کہ اس کا قدرتی حسن اور ماحول کسی طور متاثر نہ ہو۔ اگر ایسا ہو گا تو سیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد کاروباری و معاشی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ سو ان تمام حقائق اور ضروریات کو سامنے رکھ کر سنجیدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ ورنہ ’’بنجونسہ‘‘ بہت تیزی سے وہ سب کچھ کھو دے گا جو اس کے ہونے کا سبب ہے۔ بنجونسہ کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں اسے دیکھنا سمجھنا ہو گا اور اس کو لاحق امراض کا مداوا کرنا ہو گا۔ ورنہ جلد یا بادیر بنجونسہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے جو ہم سب کے لئے بڑا سانحہ ہو گا… ایک بھیانک سانحہ