
دھیر کوٹ ۔۔۔راجہ ماجد افسر
آزاد کشمیر کےضلع باغ کی تحصیل دھیرکوٹ میں پنچایت والوں نے ذات پات کی بنیاد پر میاں بیوی کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ سنادیا ۔۔
افسوسناک واقعہ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ رینگولی کے ایک بڑے گھرانے کے چشم و چراغ کبیر ولد افراز خان نے محمد خورشید کے ہاں سے رشتہ داری کی، لڑکی اعلی تعلیم یافتہ جبکہ لڑکا انڈر میٹرک بتایا جا رہا ہے۔
شادی کے بعد بڑے گھرانے کے عمائدین حرکت میں آ گئے اور لڑکے والوں پر دباؤ ڈال کر فوری رشتہ داری ختم کرنے کا کہا۔ چنانچہ جرگہ پنچایت کے بعد لڑکی کو طلاق دلا کر رشتہ داری ختم کر دی گئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں گھرانوں نے باہمی رضا مندی سے رشتہ داری کی تو انہیں دباؤ دیکر ایسا کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا۔ سو دو سو سال پہلے کا شجرہ اٹھا کر دیکھ لیں تو دونوں خاندان پیچھے سے ایک ہیں۔
شجرہ تو خیر انسانوں کی مرتب کی گئی دستاویز ہے جب دونوں کا دین مذہب ایک ہے تو پھر کیونکر لڑکی کی زندگی برباد کی گئی۔
بڑے گھرانے کے چشم و چراغ ڈسٹرکٹ کونسلر لالہ محمود، سیکرٹری راجہ محمود شاہد، سرکردہ سیاسی رہنما راجہ منیر اور وہ تمام عمائدین جواب دہ ہیں جو اس افسوسناک عمل میں کسی نہ کسی طرح شریک رہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اسی خاندان نے سینکڑوں ووٹ دیکر لالہ محمود کو ڈسٹرکٹ کونسلر بنایا، ووٹ لیتے وقت کوئی ذات پات نہ تھی تو اب ایسا کیوں؟
یہاں لڑکی کی جانب سے وہ سارے احباب بھی پورے پورے جرم دار ہیں جو اس ظلم پر مکمل خاموش ہیں،
سارے اللہ اور بنی کے سخت قسم کے عاشق ہونے کے دعویدار بھی ہیں لیکن ایک بہن بیٹی یا مظلوم انسان پر ظلم دیکھ کر سارے ہی خاموش ہیں۔
صدر ریاست، وزیراعظم آزاد کشمیر، چیف جسٹس، حلقہ ایم ایل اے سردار عتیق احمد خان، یہاں لوگوں سے ووٹ لینے والے راجہ مبشر اعجاز، راجہ خورشید اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل ہے کہ مظلوم خاندان بالخصوص لڑکی کو انصاف دلائیں وگرنہ یہ کیس پاکستان میں انسانی حقوق کے ایوانوں تک لے جایا جائے گا۔
بتایا گیا ہے کہ جس مولوی نے یہ نکاح پڑھایا اس کی دکان خالی کرا دی گئی اور اسے مسجد کی امامت تک سے فارغ کرا دیا گیا ہے۔
آخر ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔۔۔۔آخر کب تک کمزور طبقہ کے لوگ یونہی ظلم کا شکار رہیں گے۔۔؟؟؟