
تحریر… اویس الاسلام جاوید
نوے کی دھائی کا ابتدائیہ کشمیر میں جہادی گروپوں کی آمد کا وہ دور تھا جس میں کشمیلون قمیض شلوار، ٹویٹ پھیرن اور ڈکبیک بوٹ میں ملبوس کلاشنکوف بردار کشمیری نوجوانوں کا اصل ہیرو اور ائیڈیل قرار پایا تھا۔
سرحد پار جائیں گے کلاشنکوف لائیں گے کا نعرہ زبان زد عام تھا اور یہ اسی ہیروازم کا جادو تھا جس کے سحر میں مبتلا ہزاروں کشمیری نوجوانوں نے نتائج سے بے نیاز ہوکر اپنے گھر، تعلیم، کام کاج اور عزیز و اقارب سے دوری کی کوئی پرواہ کئے بغیر خونی لکیر (LOC) پار کئے جانے کے جرم کا ارتکاب کر ڈالا۔
مگر خونی لکیر کے اس پار ماحول کو اپنے ادراک و تصورات کے غیر مماثل ہی نہیں بلکہ بالکل ہی الٹ اور برخلاف پائے جانے کے نتیجے میں تھوڑے ہی عرصے میں ان نوجوانوں نے خود کو سراسیمگی حیرانگی اور بہت حد تک مایوسیت کی دلدل میں دھنستے ہوئے محسوس کیا ۔ نامنہاد ریاست آزاد جموں و کشمیر کی اجباری لاتعلقی، ریاست پاکستان کی مبہم اور غیر واضح کشمیر پالسیاں، جہادی گروپوں کی بے جواز کثرت اور ان گروپوں کی آپسی چپقلش و ماردھاڈ وہ عوامل ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں میں وطن کی آزادی کا خواب سجانے والے ان حساس طبیعت کے حامل پڑھے لکھے نوجوانوں کو افسردگی اور بے بسی کے ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کر دیا جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
یوں تحریک آزادی کے تئیں اپنے خیالات و تصورات کے محل کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھنے والے ان نوجوانوں کی حالت ایک گمگشتہ مسافر کی سی ہوکر رہ گئی اس طرح ان کے اندر ایک عجیب سا احساس پختہ ہوتا چلا جس سے وہ محسوس کرنے لگ گئے تھے کہ شاید ان کے اس سفر کی کوئی منزل ہی نہیں ہے تذبذب اور بے یقینی کی اس کیفیت کا لازمی نتیجہ یہ ٹھہرا کہ ان کے معاملات کسی مساعی اجتماعیہ کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں کے تابع رہنے کے بجائے نفسی نفسی کے مصداق ان کی ذات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے تھے ان متذکرہ بالا عوامل کا جو لازمی نتیجہ نکلنا تھا وہ یہی تھا کہ بہت سوں نے واپس خونی لکیر کو پار کرتے ہوئے موت کو گلے لگا دیا اور جو وہاں سے بچ کر کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ان میں سے کسی نے لڑتے مرتے جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی تو کسی کو ہندوستانی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی اور بہت سارے تو ایسے بھی تھے جنہیں جہادی گروپوں کی آپسی لڑائیوں میں موت کے گھاٹ اترنا پڑگیا جبکہ ایک خاص تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جنہوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے شہروں کا رخ کر کے اپنے لیے ایک نئی دنیا کھوجنے کی جستجو کو اپنا معمل گردانا جن میں سے ایک قلیل تعداد ہی ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک نام نہاد جہادی گروپ کی بے جا مداخلت، جبر و استبداد، ماردھاڈ اور دھونس کے باوجود پڑھ لکھ کر یا کسی چھوٹے موٹے کام یا کاروبار کے حصول کی شکل میں اپنی عزت نفسی کا بھرم قائم کر دکھایا جبکہ ان میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اب بھی کسمپرسی اور بدحالی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں جن کی آبادکاری کی باتیں آج کل ان کی نجی اور اجتماعی محفلوں کا موضوع خاص بنی ہوئی ہیں۔
خبریں یہی ہیں کہ اس اہم معاملے کی گونج اب مقتدر حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے اورایسا لگ رہا ہے کہ مقتدر حلقے بھی اب کے بار اس اہم اور گھمبیر مسئلے کو زبانی جمع خرچ سے بڑکر عملی اقدامات کے ذریعے نتیجہ خیز بنانے میں پر عزم ہیں اور اس کے لیے وہ اپنا کلیدی رول ادا کرنے کا واضح اندیہ بھی دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس سارے مخمصے میں سب سے زیادہ متدول اور خوشحال لوگ وہ طبقہائے اشرافیہ ہے جو پوری بلی تھیلے سے باہر آجانے کے مصداق جہاد ی مغالطے پر مبنی اس فلم کے تمام سربستہ ہائے رازوں کے منکشف ہو جانے کے بعد بھی اپنی قوم کو مغالطے میں رکھنے کا گھناؤنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں یہی وہ طبقہ ھے جو رام رام جپنا پرایا مال اپنا کے مصداق قوم کے بچوں کو اب بھی جھوٹے اور بے بنیاد نعروں میں لگا کر اندر ہی اندر کروڑ پتی بلک کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اب ارب پتی بن چکے ہیں۔
اور یہ حقیقت تو اب اظہر من الشمس ہے کہ اس طبقے کی تمام تر اسودگیوں اور آسائشوں کا رائس المال ہی ہماری ماؤں بہنوں کی عصمت، ہمارے نوجوانوں کا گرم گرم خون اور ہمارے تعلیمی و کاروباری اداروں کی بربادی ہے لہذا استعماری اور استبدادی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے سے پہلے نفرت کے ان سوداگروں کو اپنی اوقات میں لائے جانے کا سامان بھی از حد اہم اورضروری ھے۔ تحریک آزادی کو قومیانے کی خاطر، اس کو ایک نئی جہت سے روشناس کرانے اور بالآخر ایک منطقی انجام تک پہنچاکے لیے تعاون فراہم کرنے کی اولین زمہ داری ملک خدا داد کے ان سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی ہے جو دید دانش سے آزاد اس ٹولے کو وہ جملہِ وسائل فراہم کرتے ہیں جنہیں استعمال کرکے اس ٹولے سے وابستگان خود تو کروڑپتی اور ارب پتی بن چکے ہیں مگر قوم کو لاکھوں جانوں کے زیاں، ہزاروں خواتین کی عزت و عصمت کی نیلامی، اربوں روپے کے خسارے اور تین نسلوں کی بربادی سے دو چار کر نے کے بعد کسی متفق علیہ لائحہ عمل کے ذریعے اس کو کوئی امید دینے میں واضح طور پر ناکام نظر آرہاہے
۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کو بات چیت کے ذریعے ایک آبرو مندانہ انجام دینے کا نادر موقعہ تو اس ٹولے کی عاقبت نااندیش قیادت نے گنوا دیا تھا مگر تجربات سے فایدہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری اس ٹولے کی قیادت نے دفعہ 370 اور 35A کے اختتام کے بعد قدرہائے مشترکہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والا وہ موقع بھی ضائع کردیا جس کو استعمال کر کے تحریک آزادی سے بظاہر لاتعلق مگر ریاستی تشخص کو برقرار رکھنے میں انتہائی سنجیدہ نظریات رکھنے والے سٹیٹ سبجکٹس کے ساتھ ہم آواز ہوکر کشمیر کش اور کشمیر فروش پروگرامات کو ناکام بنایا جاسکتا تھا مگر شومئی قسمت کہ یہاں بھی اخلاص اور دیانت پیچھے رہ گئی جبکہ مفاقت، مفاد پرستی فکری بھونہ پن، اور دید و دانش سے عاری سوچ اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوگئی۔
اب یہ عالم ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یئس اور پژمردگی اپنے ڈیرے جمانے میں مصروف ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے مایوسیت لوگوں کے قلب و اذہان میں اپنا گھر مضبوط کر بیٹھی ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی ڈھکوسلوں ڈراموں اور منافقت سے قوم کو بیوقوف بنانے کی روش کو کمال اجتناب سے ترک کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور منصفانہ طریقہائے عمل سے رنگ و نسل اور دین و مذہب کی غیر منطقی تنگنائیو میں گرفتار ہونے کے بجائے ان کی فراہم کردہ وسعتوں سے مستفید ہوتے ہوئے محض باشندگان ریاست جموں و کشمیر ہونے کی بنیاد پر پوری قوم کو وسیع پیمانے پر ملوث کرکے اس قومی اور ملی مسئلے کو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت ایک حقیقت پسندانہ، آبرو مندا اور منصفانہ حل پر منتج کیا جائے۔ اور یہ سب کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی عوام سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری شعبہائے زندگی سے متعلقین خاص طور پر سول سوسائٹی سے وابستہ لوگوں کے مسئلہ کشمیر کے تئیں روایتی ہٹدرمی اور خلاف حقیقت خیالات و نظریات کو حقیقت پسندگی اور مبنی بر حقیقت حقائق کے رنگ میں رنگا جائے جو کہ ایک بہت ہی مشکل اور کٹھن کام ہونے کے باوصف ہمارے لیے انتہائی ضروری اور اہم ہے۔۔۔۔۔