

مقبوضہ جموں و کشمیر طویل عرصے سے تنازعات کا ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے، جہاں عسکریت پسندوں اور قابض ہندوستانی فورسز کے درمیان متعدد مقابلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں، صوبہ جموں میں اس طرح کے مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس نے بنیادی عوامل اور ان واقعات کو ترتیب دینے میں ہندوستانی ایجنسیوں کے ممکنہ طور ملوث ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ سے، جموں صوبے میں مقابلوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، ان مقابلوں میں دونوں اطراف سے بشمول بھارتی فوج، عسکریت پسندوں، اور عام شہریوں کو بھاری جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ علاقے روایتی طور پر وادی کشمیر کے مقابلے میں پر امن سمجھا جاتا ہے، لیکن حالیہ پے در پے تصادموں نے سب کو چونکا دیا ہے اور بھارت کے مختلف علاقوں سے آئے یاتریوں پر حملوں نے ان تصادموں کے شکوک و شبہات کو بڑھاوا دیا ہے۔ تجزیہ نگاروں اور ماہرینِ کا خیال ہے کہ ان مقابلوں میں کہیں نہ کہیں بے قاعدگیاں شامل ہیں جن کے پس پردہ انڈین انٹیلیجنس ایجنسیوں کے فعال کردار کو رد کیا جانا ممکن نہیں، کیونکہ اس طرح کے واقعات میں خفیہ اداروں کی ممکنہ مداخلت اور زیر زمین کاروائیاں کرنا معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے جس کے پیچھے مختلف محرکات شامل ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے مقابلوں کا اہتمام کرکے، ہندوستانی ایجنسیاں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف مضبوط موقف پیش کرتے ہوئے خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔
حکمران سیاسی جماعتیں سیاسی فوائد حاصل کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ان مقابلوں کو قومی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حمایت حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
متواتر مقابلوں سے مقامی آبادیوں میں خوف و حراس پیدا کرکے عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت، مدد یا ان کی حمایت سے روکنا مقصود ہوتا ہے۔
مقامی عسکریت پسندی اور ان کے نیٹ ورک میں خلل ڈالنا جس سے بغاوت کو کمزور کیا جائے کی حکمت عملی کار فرما ہوتی ہیں۔
ان کارروائیوں کا استعمال ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انسداد دہشت گردی کا مضبوط مؤقف پیش کرکے مقامی اور عالمی سطح پر قائم تاثر کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہندوستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لئے ان مقابلوں کو وقوع پذیر کیا جاتا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں پے در پے تصادم ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں، بظاہر بھارت سرکار ان کارروائیوں کا مقصد عسکریت پسندی کو روکنا اور خطے میں استحکام لانا پیش کرتی ہے، لیکن ان کے پس پردہ اہم سیاسی اور تزویراتی اثرات موجود ہیں۔ حقیقی محرکات اور ایجنسیوں کی شمولیت کے حدود کو سمجھنے کے لئے واقعات اور ان کے وسیع تر سیاق و سباق کا قریب سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ جھڑپوں کا گہرائی سے تجزیہ، تاریخی تناظر، سیاسی چالبازیوں، فوجی حکمت عملیوں، انٹیلیجنس آپریشنز، بین الاقوامی ردعمل، مقامی آبادی پر اثرات اور ان کے رد عمل سے گہرے سمبندھ مستقبل قریب میں زیر غور منصوبوں کی تکمیل کے بارے اشارے ملتے ہیں۔