
میں پہنچا تو دونوں کنبے مارپیٹ پر تُلے نظر آئے۔ میں نے پوچھا "خدا کے بندو آخر ہوا کیا؟”
بڑے بھائی نے گرج کر کہا” اس نامرد سے پوچھو حاجی بھیا،سامنے آکر مقابلہ کرنے کی ہمت تو ہے نہیں، اب تعویز گنڈے سے ہمیں مروانا چاہتا ہے!”
میں نے اصغر کی طرف دیکھا۔ اس نے گرم لہجے میں اکبر کو کہا”جھوٹ نہ بول۔ میں لعنت بھیجتا ہوں جادو ٹونے پر!”
اکبر گرجا ” معصومیت کا ناٹک نہ کر۔ پروین نے صبح ہی تجھے سڑک والے نیموں کی جڑ میں تعویز دباتے دیکھا ہے۔”
یہ سن کر اصغر چونکا اور مجھے سنجیدگی سے مخاطب کیا ” چلیں حاجی صاحب، بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھ سے وہ تینوں تعویز برآمد کرلیں۔”
اکبر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس کی بیوی بھی ساتھ لے لی گئی۔ کچھ ہی دیر میں پہلا نیم ہمارے سامنے تھا۔ پروین نے درخت کی جڑ کی طرف اشارہ کیا۔ واقعی، صاف لگ رہا تھا کہ گیلی مٹی کھود کر کچھ دبایا گیا ہے۔ میں نے انھیں اگلے نیم کی طرف بھیجا اور خود مٹی کھود کر برآمد شدہ چیز مٹھی میں دبالی۔ باقی دو نیموں کے پاس سے بھی برآمدگی ہوگئی۔
راستے بھر اکبر اور پروین کھسر پھسر کرتے رہے۔ البتہ اصغر خاموش رہا۔ گھر پہنچتے ہی اکبر نے اصغر کو للکارا "اب بتا فتنے۔۔۔۔”
میں نے اسے روکتے ہوئے پوچھا” بھیا تمھیں یقین ہے ناں اس نے وہاں تعویز ہی دبائے تھے؟”
اکبر اور پروین نے ایک ساتھ ہاں میں گردن ہلائی۔
میں نے ایک نظر انھیں دیکھا اور پھر یہ کہتے ہوئے مٹھی کھول دی ” مگر مجھے تو ان تینوں جگہ سے یہ ملی ہیں!”
سب گھر والوں کی نظریں میری کھلی ہتھیلی پر رکھی جامن کی تین گٹھلیوں پر جمی ہوئی تھیں۔