

شافع محشر سرکار رحمت العالمین ﷺ کا ارشاد پاک ہے
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ”
یعنی ‘حسین مجھﷺ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کر۔ حسین میرے الْأَسْبَاطِ میں سے ایک سِبْطٌ ہے’
سید الشہداء کے لقپ سے مشہور حضرت سیدنا امام حسین سرکارﷺ کےلاڈلے نواسے، شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالب اور سیدہ کاہنات جناب فاطمہ زہرا کی انکھوں کا نور تھے ۔
تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداﷺ نے آپؑ کی ولادت کے دوران میں آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہ حسن بن علی اور حسین بن علی (حسینن کریمین ) کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے۔
امام حسین کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات ہیں انہی میں سے یہ بھی ہے؛ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں سیدنا امام حسین کی بچین سے لیکر معرکہ کربلا تک کی زندگی مشعل نور ہے مدینہ سے کربلا تک کا سفر رہتی دینا تک مشعل راہ ہے
اس میں کوی شک نہیں کے معرکہ کربلا ہمیں حق وباطل کا فرق، حق و انصاف صبر و استقلال ،بھائی چارے ، امن و استقامت اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے، بلکہ
باطل کے سامنے سینہ سپر اور حق پر سب کچھ نچھاورکرننے کو فلسفہ حسینیت سے یاد کیا جاتا ہے ۔
اس دن حق و باطل کے درمیان وہ معرکہ ہوا جو قیامت تک مسلمانوں کو ظلم اور بربریت کیخلاف جہاد کرنے کا درس دیتا رہے گا بلکہ واقعہ کربلا کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے میں ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے خلاف سینہ سپر ہو کر مظلوم اور حق کا ساتھ دیینے کا نام کربلا ہے بلکہ یوں تحریر کرنا ب جا نہ ہوگا کے واقعہ کربلا دین کی سر بلندی کےلیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا نام ہے۔
10 محرم الحرام یومِ شہادت امام عالی مقام نواسہ رسولﷺ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی میں اللسان نظر آتا ہے، نواسۂ رسول جگر گوشۂ نبی کی شہادت ، اسلامی تاریخ کا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے کہ صدیوں اس کی یاد تازہ رہے گی اور انسانیت کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی،
حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور کربلا کی سرزمین پر پیش آئے واقعات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیاجائے تو اس سے بے شمار نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں، جن کے ذریعہ عملی زندگی میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ آدمی کو حق اور دینِ حق سے اس درجہ وابستگی ہوکہ وہ حق کے لئے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اگر جان کی قربانی دے کر حق کی حفاظت کی جاسکتی ہو تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کرے۔ یزید کی بیعت کے وقت جو صورتحال تھی اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی ڈگر سے ہٹ رہا ہے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام حکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظام خلافت ہے۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظام حکومت خلافت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہوگیا اور یہ اسلامی نظام زندگی میں ایسی اساسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے
یزید کا اقتدار پر آنا خطرناک تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ اسلامی نظام زندگی بالکل الٹ کر رکھ دیا جارہا تھا۔اگر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان کی قربانی نہ دی ہوتی تو اسلامی خلافت کے تصور کا کتابوں میں محفوظ رہنا بھی مشکل ہوتا۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ اس وقت ملوکیت کی مخالفت کرنا اور اس کے آگے ڈٹے رہنا وقت کا تقاضہ ہے، اس لئے انہوں نے اپنی جان کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔
پوری تاریخ میں، نیلسن منڈیلا اور مہاتما گاندھی جیسی متعدد قابل ذکر شخصیات نے ظلم کے خلاف حسین کے موقف کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ وہ ناانصافی کے خلاف اپنے لڑائی لڑ رہے تھے ۔
معرکہ کربلا ہمیں حق وباطل کا فرق، حق و انصاف صبر و استقلال ،بھائی چارے ، امن و استقامت اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے، باطل کے سامنے سینہ سپر اور حق پر سب کچھ نچھاورکرنا ہی فلسفہ حسینیت ہے ۔ اس دن حق و باطل کے درمیان وہ جنگ لڑی گئی جو قیامت تک مسلمانوں کو ظلم اور بربریت کیخلاف جہاد کرنے کا درس دیتی رہے گی۔ واقعہ کربلا کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے میں ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔ مظلوم اور حق کا ساتھ دیا جائے۔ واقعہ کربلا دین کی سر بلندی کےلیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا درس دیتا ہے۔۔
حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی میدان کربلا میں دی گئی لازوال قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اور انکی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر محبت اہلبیت کا ثبوتنے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرمات الٰہی کو حلال کرنے والے ، سنت رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اس کو قولاً و عملاً غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس کو دوزخ میں ڈال دے۔ لوگو! خبردار ہوجاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے۔ رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الٰہی کو توڑا جارہا ہے۔ خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کررہا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال ۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ اس لئے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔” ( ابن الاثیر بحوالہ سیرالصحابہ) اس خطبہ کے ایک ایک لفظ سے غیرتِ اسلامی جھلکتی ہے اور حفاظتِ حق کا وہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے جس کے تحت حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کے لئے جان کی قربانی دی۔ انہوں نے اپنے عمل سے بتادیا کہ حق کے لئے سرکٹایاجاسکتا ہے لیکن باطل کے آگے سرنگوں ہونا مومن کی شان نہیں۔ مومن کا سر حق کے لئے کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتا۔
ابو الاثر حفیظ جالندھری نے کیا خوب اندازمیں مولا حسین کے خضور اپنا نظرانہ پیش کیا ہے
لباس ہے پھٹا ہوا ، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
یہ جسکی ایک ضرب سے ،کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اٹھی صدائے الاماں زبان شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
عبا بھی تار تار ہے تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی ، فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محو کارزار ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
دلاوری میں فرد ہے بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جسکے دبدے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے
حبیبِ مصطفی ہے یہ مجاہدِ خدا ہے یہ
کہ جسطرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
اُدھر سپاہِ شام ہے ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں اِدھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے.
رب کریم سے دعا ہے ہمیں اور ہماری انے والی نسلوں کو سردار جنت امام عالی مقام سیدنا امام حسین کے حق کی طرح وقت کے یزیذوں کے سامنے ڈٹ جانے کی توفیق دے امین اور مولا حسین کے افکار کو عملی زندگیوں میں اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ امین