
ایک عالم سے پوچھا کہ خدا نے یہ کائنات کیوں بنائی؟
اس نے جواب دیا، تاکہ اسے پہچانا جائے۔
ایک عالم سے پوچھا کہ مشرک کو صرف کچھ ماننے نہ ماننے پر جہنم کی سزا کیوں دی جائے گی؟
اس نے کہا کیونکہ یہ خدا کا حق ہے، اور اس کا تقاضہ ہے کہ اس کو ویسا ہی مانا جائے، جیسا وہ ہے۔
ہم یہ سمجھیں کہ خدا برحق ہے، یا یہ سمجھ لیں کہ تصور خدا انسانی ذہن میں کھلبلی مچاتی باتوں کی بازگشت ہے، ہر دو صورت میں اس بات کو درست پائیں گے کہ کسی ذات کا جانا جانا، اور اسے مانا جانا، بہت اہم ہے۔ پہلی صورت میں خدا تک کے لئے، اور دوسری صورت میں کم از کم انسان کے لئے۔
آپ کسی کو کیا سمجھتے ہیں، یا یوں کہہ لیجئے کہ کوئی آپ کو کیا سمجھتا ہے، یہ بات آپ کے اور اس کوئی کے درمیان کسی بھی طرح کا تعلق قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے سب سے اہم نکتہ ہے۔
میں اکثر ٹریننگ سیشنز میں ٹیچرز کو کہتی ہوں کہ آپ بچے کو کیا سمجھتے ہیں، یہ اہم ہے، اور میری نظر میں کلاس روم کی لرننگ سیٹنگ میں یہ بات سب سے اہم ہے۔ اس کی بازگشت یوں آئے گی کہ بچہ آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ سو کلاس ایک ہیلدی لرننگ پلیس ہو گی، یا کیوس، اس کا تعین یہی بات کرے گی کہ آپ بچے کو کیا سمجھتے ہیں۔
ماں باپ سے تعلق سب سے گہرا اور قریبی ہونے کے پیچھے بھی یہ بات موجود ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کچھ بھی کر لیں، والدین ہمیں اچھا جانتے اور اچھا مانتے ہیں۔ والد کی طرف سے بچے کو جوں جوں یہ احساس ملتا ہے کہ وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا، بچہ والد سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اکثر انسانوں کو یقین ہوتا ہے کہ انکی ماں زندگی کی آخری غلطی کر لینے کے بعد بھی ان کو اچھا جانے اور مانے گی۔ ماں سے جذباتی اور نفسیاتی تعلق کے اٹوٹ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
جس دوست بارے جس لمحے آپ جان لیں کہ وہ آپ کو اچھا نہیں سمجھتا، آپ کو کمتر جانتا ہے، اسی لمحے آپ کے دل سے دوستی ختم ہو جاتی ہے، دنیاداری کا میل ملاپ چاہے باقی رہ جائے۔
اب اس بات کے تناظر میں ہر اس تعلق کو ٹیبل پر لے آئیے جو مرد اور عورت کے بیچ ہے۔ اگر معاشرے کا مرد عورت کو بوجوہ صنف خود سے کمتر سمجھے گا، تو عورت اور مرد کے بیچ بنا ہر تعلق میٹیریلسٹک سطح تک محدود نہیں رہ جائے گا، یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ عورت انسان ہے، اور اس کی نفسیات بھی ویسی ہی ہے جیسی تصور خدا بنانے والوں کی، یہ بات اس کی نفسیات میں بہت اہم ہے کہ اس کو کیا جانا جا رہا ہے، کیا مانا جا رہا ہے۔ انسان اپنی نفسیات سے بھلا کہاں لڑ سکتا ہے، اور کہاں تک لڑ سکتا ہے؟
معاشرہ عورت کی کنڈیشنگ کر لے، اسے باور کرا دے کہ وہ مرد سے کمتر ہے، اور اس سے دنیا کے ہزار معاملات طے کر لے، لیکن اس طرح اس عورت کی ذات میں رہ جانے والی کمیوں کوتاہیوں کو کون بھگتے گا؟ وہ عورت خود اور اس کے اردگرد رہنے والے تمام افراد۔۔۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔
عورت اور مرد کے کسی بھی تعلق میں موجود مسائل کا حل اس سے کم پر ممکن ہی نہیں کہ عورت اور مرد کو ایک جیسا انسان سمجھا جائے۔ عورت اس بات کو شعوری طور پر سمجھے، یا نہ سمجھے، کہے یا نہ کہے، اس سے اس کی نفسیات نہیں بدلنے والی۔
پدرسری کا بینیفشری مرد ہے، اس اپروچ سے اس کو سنگھاسن ملا، لیکن پدسری کا نقصان اٹھانے میں مرد عورت کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ پدرسری ماحول میں پرورش پا کر عورت مرد کے ساتھ ویسا ہی سلوک کر سکتی ہے، جس کی شکایت آئے روز مرد کرتے رہتے ہیں۔
اس اپروچ سے مرد نے کیا پایا؟ سنگھاسن۔
اس اپروچ سے مرد نے کیا کھویا؟
اپنا ساتھی کھویا، محبت کرنے کا ڈھنگ نہ آیا، اپنی ذات سے معاملات کرنے کی اہلیت نہ رہی، احساس سے دستبرداری کی، اظہار سے دستبرداری کرنا پڑی، آزادی سے دستبرداری۔۔۔ جی ہاں، مرد اپنے ہی چار دوستوں میں بیٹھ کر یہ بات تک کہنے میں آزاد نہیں کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔ یہ جبر بظاہر عورت پر ہے، لیکن اس سیارے کا مرد جس عورت سے زمان اور مکان شئیر کر بیٹھا ہے، اس کے نفع نقصان میں برابر کا شریک ہے۔ جس دن وہ یہ بات سمجھ لے گا، اسی دن خود کو عورت کی امپاورمنٹ پر قائل کر سکے گا، مائل کر سکے گا۔
باقی ہانکے جائیں گے، تو سبھی ہانکے جائیں گے، عورت بھی اور مرد بھی، کہ مرد نے اس سیارے پر عورت کے ساتھ، اور عورت نے اس سیارے پر مرد کے ساتھ زمان اور مکان شئیر کیا ہے۔
– روبینہ شاہین