
عائشہ نور
ملک بھر میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز آئی پی پیز کی تعداد 100 کے قریب ہے ۔۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے طویل لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا پانے کے لئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے ۔۔ لیکن آج یہ ادارے حکومت اور عوام کے گلے کا طوق بن چکے ہیں۔ آئی پی پیز زیادہ تر غیر ملکی افراد یا کمپنیوں کی ملکیت ہیں ۔۔ کچھ آئی پی پیز سی پیک کے تحت بھی چل رہی ہیں ۔۔ آئی پی پیز کو روپے کی بجائے ڈالر میں ادائیگیاں کے معاہدے ہوئے ۔۔ بجلی پیدا ہو یا نہ ہو ہر صورت کپیسٹی پیمنٹس کی بھی ادائیگی معاہدوں کو حصہ تھی۔ آج حکومت ان معاہدوں پر نظرثانی کرنے کیلئے سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری نے پارلیمنٹ کی راہدایوں میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ حکومت نے آئی پی پیز سے متعلق سوچنا شروع کر دیا ہے ،،، حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی پر کام بھی شروع کر دیا ہے جلد ہی ریلیف کی خبر سننے کو ملے گی۔۔ جبکہ وزیرتوانائی کے بیاں کے برعکس ماہرین کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی انتہائی مشکل ہے ۔۔ ان آئی پی پیز کو حکومت نے 1800 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے باعث پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2 ہزار 3 سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ آئی پی پیز کے ہوتے ہوئے گردشی قرض کو کم کرنا انتہائی مشکل ہے۔