
سفرنامہ… نوید اشرف خان
رتی گلی سے واپسی پر ایک عجیب حادثہ ہوگیا کہ میرا ایک شوز کا تلوا بالکل ہی نافرمان اولاد ہی طرح ہتھے سے اکھڑ گیا ۔۔۔کیمپ کے کچن میں رئیس بھائی کے پاس بیٹھا اگلے دن کو خوبصورت یادوں میں بدلنے کا سوچ رہا تھا ۔۔رئیس بھائی کا کہنا تھا کہ ہنس راج جھیل نکل جاؤ ۔۔پانچ چھ گھنٹے میں باآسانی گھوم پھر کے واپس آجاؤ گے ۔۔ساتھیوں میں سے کوئی بھی تیار نہ تھا ۔۔بلکہ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کی قسم اگر وہاں پریاں ہوں اور میرا نام لیکر پکارتی ہوں ۔۔۔تب بھی نہ جاؤں ۔۔۔تیرا دماغ خراب ہے صبح دیر تک سوئیں گے ۔۔۔تھکن اتاریں گے ۔۔۔
میرا دماغ تو واقعی خراب تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جوتے بھی خراب ہوچکے تھے اور پہاڑ پر جوتے ، جوتے نہیں پاؤں ہوتے ہیں ۔۔رئیس بھائی شوز بری طرح اکھڑ چکے ہیں ۔۔۔
رئیس بھائی نے کمال محبت سے فوراً اپنے جوتے پیش کردیے ۔۔۔
لیکن وہ بہت چھوٹے تھے ۔۔۔
حسین ادھر آ ۔۔۔اپنے جوتے انکل کو چیک کروا ۔۔
حسین کا اور میرا نمبر ایک ہی تھا ۔۔۔
حسین بڑا خوبصورت جوان تھا ۔۔۔رئیس بھائی کا صاحب زادہ تھا اور میٹرک کا طالبعلم تھا ۔۔سکول سے دس چھٹیاں تھیں تو یہاں چلا آیا تھا ۔۔۔
حسین تم اس سے پہلے گئے ہو ہنس راج ۔۔۔۔
نہیں انکل میں نہیں گیا ۔۔۔
یار پھر کل میرے ساتھ چلو ۔۔۔لیکن جوتے ۔۔۔۔؟
حسین کے جوتے میں لے لوں گا تو یہ کیا پہنے گا ۔۔۔
انکل میرے پاس ایک اور جوڑا بھی ہے جاگرز کا ۔۔۔
پھر تے گل ای مک گئ ۔۔۔صبح ٹھیک پانچ بجے یہیں کیمپ کچن میں ملاقات ہوگی ۔۔۔
ہم چاچے بھتیجے نے پروگرام کو حتمی شکل دی اور رئیس بھائی ہم دونوں کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے ۔۔۔۔
رات بہت ٹھنڈی تھی اور سرد ہوائیں پوری رات چلتی رہی تھیں ۔۔۔صبح منہ اندھیرے اٹھ گیا ۔۔۔پورا کیمپ سو رہا تھا ۔۔۔جستی چادروں سے بنے واش روم کی جانب جاتے ٹھنڈی ہوائیں سینے کے آر پار ہوتی تھیں ۔۔۔چہار سو خاموشی اور بہت حسین منظر تھا ۔۔۔لیکن یہ خمار جلد ہی ختم ہونا تھا ۔۔۔
کیونکہ پانی استعمال کرنا تھا ۔۔۔
حوائج ضروریہ سے فراغت کے بعد ۔۔۔اصل امتحان شروع ہوتا ہے ۔۔۔
پاکیزگی کے حصول کیلیے تین یا چار بار بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو ہلا جلا کر انہیں اپنے وجود کا احساس دلانا پڑتا ہے ۔۔۔اگر کوئی ایک نشست میں پاکیزگی کے حصول کا مدعی ہے تو یا تو وہ ۔۔۔چھوڑو ہے بہت بڑا ۔۔۔یا بین الاقومی غلیظ ۔۔!!
ہاتھ صابن سے دھونا اور ہاتھ پر لگے صابن کو اتارنا ۔۔۔۔برش کرنے کے بعد منہ بھر کر کلی کرنا ۔۔۔یا منہ پر پانی کے چھینٹے مارنا ۔۔۔سب ایک سے بڑھ کر ایک امتحان تھا ۔۔۔جبکہ یخ بستہ ہوائیں بھی پانی کی ہمنواء تھیں ۔۔۔
ٹھیک پانچ بجے میں کچن کیمپ کے باہر موجود تھا ۔۔۔تھوڑی سی تاخیر کے بعد حسین بھی آگیا ۔۔۔نوجوان تھا اتنی تاخیر تو بنتی تھی ۔۔۔اس نے مجھے اپنے شوز دیے اور دس منٹ کا کہہ کر چلا گیا ۔۔۔دس منٹ بعد وہ تیار ہوکر آگیا ۔۔۔
حسین کے شوز تھوڑے سے تنگ تھے لیکن میں کسی بہانے کو جگہ دینے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔
رتی گلی جھیل سے آتی ندی کو عبور کرکے بیس کیمپ کی شمال کی جانب آتی پانی کی ایک اور ندی کے ساتھ ہم نے سفر کرنا تھا ۔۔پانی کی یہ ندی ہنس راج سے آرہی تھی ۔۔
ہنس راج جھیل ۔۔۔۔نصف صدی پہلے اس جھیل میں تیرتے برف کے ٹکڑوں کو دیکھ کر ہنس راج سے تشبیہہ دینے کے بعد ۔۔۔یہ جھیل تارڑ صاحب کی ہنس راج جھیل ہی بن گئ تھی ۔۔۔ہر خاص وعام بلکہ مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد بھی اسے ہنس راج جھیل ہی پکارتی ہے ۔۔۔جبکہ حقیقت میں رتی گلی اس کا نام ہے ۔۔۔پرانے مقامی لوگ اور بکروال آج بھی اسی کو رتہ سر کہتے ہیں ۔۔۔اس کا نام رتہ سر اس کے اردگرد موجود سرخ پہاڑوں کی رنگت کی وجہ سے تھا ۔۔۔اس کے گرد معروف لال بتی چوٹی بھی ہے جو کہ انگریز دور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سروے کیلیے استعمال ہوا کرتی تھی ۔۔۔۔
موجودہ معروف رتی گلی جھیل کو مقامی افراد سریاں سر کہتے ہیں جبکہ اس کا نام آزاد کشمیر حکومت نے معروف صوفی بزرگ میاں برکت علی رح کے نام پر برکاتیہ جھیل رکھا ۔۔۔کاغذات میں یہ آج بھی برکاتیہ جھیل ہے ۔۔۔۔
لیکن چونکہ ہم اکھاڑ پچھاڑ کے ماہر ہیں تو ہم نے ناموں کے ساتھ بھی یہی کیا ۔۔۔رتہ سر کو تو میں بھی تارڑ صاحب کے احترام میں ہنس راج ہی کہوں گا ۔۔۔لیکن باقی جھیلوں اور آبشاروں کے خودساختہ نام رکھنے سے اجتناب کیا جائے ۔۔۔یہاں موجود ہر جھیل ،آبشار اور چراگاہ کا اپنا ایک مقامی نام ہے اسے اسی نام سے پکارنا ہی بہتر اور مناسب ہے ۔۔۔
ہنس راج کی جانب سفر شروع کرتے ساتھ ہی حسین پانی کے ایک بہتے جھرنے کے پاس رک گیا کہ میں زرا منہ ہاتھ دھو لوں ۔۔اور بڑے انہماک اور چاہ سے بھر بھر چلو منہ پے چھینٹے مارنے لگا ۔۔۔۔
بڑا دلیر اور مضبوط نوجوان ہے ۔۔۔
ہاں شاید جوان خون ہے یخ پانی اس کے گرم خون پر اثر انداز نہیں ہورہا ۔۔۔۔مجھے حسین پر رشک آرہا تھا ۔۔۔
انکل آجائیں آپ بھی ۔۔۔۔
اس کی دعوت کے ساتھ ہی مجھے جھرجھری سی آگئ ۔۔۔
آجائیں یہ گرم پانی کا چشمہ ہے ۔۔۔بیس کیمپ کے قریب یہ واحد گرم پانی کا چشمہ ہے۔۔۔بلکہ اس کا نام ہی گرم چشمہ ہے ۔۔۔
ہائے ظالم ۔۔۔پہلے بتایا ہوتا ۔۔۔تو میں صرف تشریف کو امتحان گاہ بناتا ۔۔۔۔باقی منہ ہاتھ یہاں دھو لیتا ۔۔۔۔
حسین کے دعویٰ کی پرکھ کیلیے ہاتھ پانی میں ڈالے ۔۔۔
حسین کا دعویٰ سچ تھا لیکن اس کے ساتھ ہی گرم خون اور اس کی بڑھتی جوانی کا بت بھی کرچی کرچی ہوگیا ۔۔۔
ندی کے ساتھ دونوں اطراف دور تک تاحد نگاہ برفانی گلیشیر تھا اور اسی گلیشیر پر ہمیں چل کر جانا تھا ۔۔۔بہت سی جگہ پر پانی کا شور سنائی دیتا تھا لیکن چلتا پانی نظر نہیں آتا تھا ۔۔۔برف کی دبیز تہہ کے نیچے چلتا پانی ۔۔۔۔چیختا ،چلاتا اور چنگھاڑتا ۔۔۔۔۔
حسین کا خیال تھا کہ ہمیں گلیشیر عبور کرکے ندی کے بائیں طرف ہوجانا چاہیے وہاں برف کم ہے ۔۔۔۔
لیکن رئیس بھائ نے کہا تھا کہ ندی کے دائیں جانب ہی رہنا ہے ۔۔۔
بیٹے کے قول پر باپ کے تجربے کو فوقیت دیتے ہم نے ندی کے دائیں جانب ہی رہنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔گلیشیر پر چلتے چلتے ہم ندی سے کافی اونچائی پر آگئے تھے ۔۔۔ندی سے دور ہونے میں ہی عافیت تھی ۔۔۔یہاں اگر برف کی تہہ ٹوٹے بھی تو چار چھ فٹ ہوگی ۔۔۔لیکن ندی کے پاس ٹوٹنے کی صورت میں گلیشیر کی دبیز تہہ میں ندی کے اندر مستقل آرام تھا ۔۔۔کم از کم ستمبر تک ۔۔۔۔اور میں یہاں اتنا لمبا نہیں رکنا چاہتا تھا ۔۔۔
پیچھے بہت سے معاملات ادھورے تھے ۔۔۔دنیا کو ایسے کون چھوڑتا ہے ۔۔
ندی سے دور ہوکر یہاں مستقل قیام کا خدشہ تو دور ہوا لیکن گلیشیر سارے نیچے ندی کی طرف عمودی ڈھلان کی صورت جاتے تھے ۔۔۔یہاں پھسلنے کی صورت میں بھی کم از کم ٹانگوں کی قربانی لازم تھی ۔۔۔لیکن دونوں صورتوں میں سے یہ زیادہ بہتر تھی ۔۔سو اسی کو اختیار کیا ۔۔۔
حسین نے میرے سفید بالوں کا احترام کرتے ہوئے مجھے امیر تسلیم کرلیا تھا۔۔۔۔ہم برف کو ٹھونک بجا کر آگے بڑھتے چلے جارہے تھے ۔۔۔جہاں کہیں برف ختم ہورہی تھی وہاں سبز مخملیں گھاس آجاتا اور جوتے پہنے ہونے کے باوجود بھی قالین کی طرح پاوں دھنسے چلے جاتے ۔۔۔دو سے تین کلومیٹر گلیشیر اور سبز گھاس پر چلتے ہم بہت دور اور کافی اونچائی پر آگئے تھے ۔۔بیس کیمپ آنکھوں سے اوجھل ہوچکا تھا ۔۔۔
آگے اب گلیشیر کی تھوڑی خطرناک صورت سامنے آگئ تھی یہاں بڑے بڑے پتھر جنہیں بولڈرز کہتے ہیں وہ پڑے تھے جن کا کچھ حصہ برف سے ڈھکا اور کچھ عریاں تھا ۔۔۔دائیں جانب نظر آتے بلند پہاڑ سے سے لینڈ سلائیڈ کی صورت نیچے آئے انہی بولڈرز پر ہم آگے بڑھے چلے جارہے تھے ۔۔۔۔ہم دونوں اس راہ پے انجان تھے ۔۔۔کوئ ذی روح اور موجود نہ تھی ۔۔۔ایک دوسرے کی مشاورت سے راہ کا تعین کرکے آگے بڑھے چلے جارہے تھے ۔۔۔
ایک چیز کو میں نے محسوس کیا ۔۔یہاں برف پر سفیدی کے اوپر سرخی سرخی سی تھی ۔۔۔جو اس بات کا ثبوت تھی کہ ہم لال بوتی کے علاقہ میں داخل ہوچکے ہیں ۔۔۔
دور سامنے اوپر بکروالوں کا ڈیرہ نظر آرہا تھا ۔۔۔ہم بھی اسی راہ پر تھے ۔۔۔کچھ ہی دیر معمولی سی مشقت کے بعد ہم بکروالوں کے ڈیرے پر پہنچ چکے تھے ۔۔۔ندی بہت دور نیچے رہ گئ تھی جبکہ برفانی گلیشیر بھی ندی کے سنگ ہم سے جدا ہوچکے تھے ۔۔۔یہاں ایک کافی بڑی سر سبز چراگاہ تھی ۔۔جہاں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیں ناشتہ کررہی تھیں ۔۔۔
بکروال ہمیں بہت اپنائیت سے ملا اور جب اسے معلوم ہوا کہ رئیس بھائ کا مہمان ہوں اور ساتھ میں ان کا بیٹا ہے تو اس کی محبت کئی گنا بڑھ چکی تھی ۔۔۔
پہاڑ کی چوٹی پر یہ کافی بڑی چراگاہ تھی ۔۔۔ہم نے کچھ دیر اس خوبصورت جگہ رکنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔بکروالوں کی پتھریلی کٹیا کے ساتھ ہی ڈیرے لگا لیے ۔۔۔
اچھی خاصی چھکائ کرکے آئے تھے ۔۔بھیڑوں کو چرتے دیکھ کر ۔۔۔حیوانی جبلت نے انگڑائ لینا شروع کی ۔۔۔۔پیٹ نے دہائی دی ۔۔۔خالی ہوں ۔۔!!
گھاس کھا یا پانی پی ۔۔۔۔یہاں کیا دوں تجھے ۔۔۔
لیکن رب تو اسی کو کہتے ہیں جو ہر جگہ ہر حال میں پہنچتا ہے ۔۔۔۔
رب نے پیٹ کی پکار سن لی ۔۔۔
بکروال ایک بڑا کٹورا لیے آگیا ۔۔۔جو تازہ لسی سے لبالب بھرا ہوا تھا ۔۔۔ہم دونوں نے باری باری تازہ لسی چسکے لیکر غٹاغٹ پی ۔۔۔کم ازکم ڈیڑھ لیٹر ہوگی ۔۔۔۔
پیٹ کی دہائیاں بند ہوچکی تھیں ۔۔۔اگلے سفر کیلیے تروتازہ ۔۔۔
بکروال سے آگے کی راہ کی راہنمائ لی ۔۔۔کیونکہ ندی تو اب بہت دور نیچے رہ گئ تھی ۔۔۔اس نے دور پہاڑ کے دامن کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔وہیں ہماری منزل تھی ۔۔۔۔
ہنس راج جھیل ۔۔۔۔رتہ سر !!!!
ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ بیس منٹ کا راستہ ہوگا ۔۔۔اگے کا راستہ سر سبز مخملیں گھاس پر تھا اور ایک خوبصورت میدان سے گزر رہا تھا ۔۔۔سامنے ایک چھوٹی سی چڑھائ آگئ اور اسی چڑھائ کے بعد ہمارے سامنے تھی وادی کی خوبصورت ترین جھیل ۔۔۔۔۔تارڑ صاحب کی ہنس راج جھیل ۔۔۔!
تین اطراف سے برف سے ڈھکی اور چوتھی جانب مٹی اور پتھروں کے بند نے جھیل کا راستہ روک رکھا تھا ۔۔۔یعنی چاروں اطراف سے پہاڑی ٹیلوں میں گھری ۔۔۔بلندیوں پر موجود ۔۔ہنس راج جھیل ۔۔۔۔
جھیل سے پانی کا اخراج کہیں سے نہیں ہورہا تھا ۔۔۔لیکن اس کے گرد گھومنے سے ایک جگہ زیر زمین پانی اپنا راستہ بنا کر نکلتا دکھائ دیا ۔۔۔بالکل جیسے سپین خوڑ جھیل اتروڑ میں دکھائ دیتا ہے ۔۔۔بظاہر اس سے پانی کا اخراج نظر نہیں آتا ۔۔۔لیکن جب آپ تسئلی سے اس کی سیر کریں تو اچھا خاصا پانی ایک چھوٹی ندی کی صورت جھیل کے بند سے دوسری جانب پتھروں کی اوٹ سے نکلتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے ۔۔۔یہی ہنس راج سے نکلنے والی ندی ہے ۔۔۔۔
ضروری نہیں کہ اوور فلو ہی ہو ۔۔۔پروقار اور دھیمے طریقے سے سطح پر بغیر ارتعاش پیدا کیے بغیر پانی کا اخراج جاری تھا ۔۔۔۔بعینہ ضروری نہیں کہ چیخ چلا کر جذبات کا اظہار کیا جائے ۔۔۔خاموشی اور وقار سے بھی حال دل بیان کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
رتی گلی جھیل سطح سمندر سے 12100 فٹ بلند ہے جبکہ ہم رتی گلی سے کافی اونچائی پر آگئے تھے ۔۔۔میرے اندازے کے مطابق ہنس راج جھیل 12500 فٹ بلندی پر واقع ہوگی ۔۔۔
جھیل کنارے کچھ لمحے قیام بہت ضروری تھا ۔۔۔حسین فوٹو گرافی کرنے لگا جبکہ میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا ۔۔۔۔
نصف صدی قبل تارڑ صاحب یہاں آئے تھے ۔۔لیکن ہمارے راستے جدا تھے ۔۔۔گوکہ ہماری منزل ایک تھی ۔۔۔وہ دور نظر آتے درے کو عبور کرکے ناران کی جانب سے یہاں پہنچے تھے جبکہ ہم بالکل اس کی مخالف سمت سے سفر کرتے آئے تھے ۔۔۔تارڑ صاحب نے پاکستان میں سیاحت کو ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ دے دیا ۔۔۔۔لیکن ہم ان کی مکمل نقالی بھی نہ کرسکے ۔۔۔ہر جگہ کو اپنے انسانی وجود سے نشانیوں سے بھر دیا ۔۔۔جوس کے ڈبے ،ریپر ،پیمپر اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔
لیکن ہنس راج کا دامن ان غلاظتوں سے پاک تھا ۔۔۔
وجہ صرف ایک تھی یہاں انسانوں کی آمد بہت کم تھی ۔۔۔یہاں جانوروں کے ریوڑ آباد تھے ۔۔۔۔
تارڑ صاحب کی ہنس راج جھیل آج بھی ویسی ہی تھی کنواری دلہن جیسی۔۔۔۔
پاکیزہ ۔!!!
جیسی نصف صدی قبل تھی ۔۔۔۔
آج بھی اس میں سفید برف کے ٹکڑے تیر رہے تھے ۔۔۔
تیرتے ٹکڑے ۔۔۔۔بالکل ہنس راج کی طرح ۔۔
میرے سامنے نوجوان تارڑ صاحب اور ان کا گائیڈ گھومنے لگے ۔۔۔۔ہاتھوں میں چھڑی لیے جھیل کی حفاظت پر مامور ۔۔۔۔
خبردار جو کسی نے یہاں اپنے وجود کا نشان چھوڑا ۔۔ ۔
سر مجھے خوشی بھی ہے اور یقین بھی کہ آپ کی ہنس راج ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ۔۔۔تروتازہ ۔۔۔۔
ہر آنیوالے کو سرشار کرتی ۔۔۔کیونکہ یہاں رسائ تھوڑی مشکل ہے ۔۔۔۔
چلو اب زیادہ باتیں نہ بناؤ ایک گھنٹے سے اوپر ہوچلا ہے ۔۔۔!
نکلو شاباش ۔۔۔۔یہاں کسی کو اتنے قیام کی بھی اجازت نہیں ملتی ۔۔۔!
تارڑ صاحب نے مجھے تھپکی لگائ ۔۔۔اور میں ایک الوداعی نگاہ ڈال کر حسین کے ہمراہ سر جھکائے واپس نکل آیا ۔۔۔۔
کچھ لوگوں کی شخصیت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ان کے منہ سے نکلی باتیں امر ہوجاتی ہیں تاریخ بن جاتی ہیں ۔۔۔
رتی سر بھی تاریخ ہوچکی تھی ۔۔۔
قصہ پارینہ بن چکی تھی ۔۔
ہم ہنس راج کے مہمان تھے ۔۔۔۔
تارڑ کی ہنس راج کے ۔۔۔
الوداع ہنس راج ۔۔۔الوداع
نوٹ ۔۔۔تصاویر کچھ زیادہ ہیں لیکن ٹریک کی تفصیلات سمجھانے کیلیے ضروری تھیں ۔۔
نوید اشرف خان
واہ کینٹ۔۔