
جماعت اسلامی کے دھرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں بہت سارے افراد جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم قرار دے رہے ہیں جبکہ حافظ صاحب ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک نیا مہرہ ہیں۔ اول تو یہ اعتراضات ایک مخصوص طبقے کی بوکھلاہٹ کا واضح اشارہ ہیں جن کی نہ تو کسی درجے کی سیاسی تربیت ہی ہوئی ہے اور جو نہ ہی سیاست کی الف، ب ہی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ایسے احباب کی سیاسی سمجھ بوجھ کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک ابہامات اور تنازعات سے بھرپور ایک شخصیت کا ہیولہ بنائے عملا اس کی پوجا ہی کر رہے ہیں۔
سیاست کی سائنس سے نابلد ایسا طبقہ جس کی سیاست خود ہی اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت ہے، ایک نئے چہرے کی مقبولیت سے خائف ہے۔ اس طبقے کا نہ ہی فکر کی دنیا سے کوئی بھی تعلق ہے اور نا ہی تاریخی حقائق سے کوئی واسطہ۔ ان کو طوطے کی مانند جو رٹوا دیا جائے بس وہی بولنے لگ پڑتے ہیں۔ اس طبقے کے بڑوں سے بھی جماعت اسلامی کی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہونے کے الزام پر وضاحت طلب کی جائے تو وہ کچھ بھی نہ بولنے سے قاصر رہیں گے چونکہ حقائق سے تو اس گروہ کا جنموں کا بیر ہے اسلئیے عوامی مسائل پر پرامن اور کامیاب جدوجہد پر بھوکھلاہٹ تو بنتی ہے۔
جس گروہ کی دائیاں شجاع پاشا، عاصم باجوہ، ظہیر الاسلام، اور قمر باجوہ ہوں، اس گروہ کو عوامی تحریکیوں پر رائے دینا قطعا زیب نہیں دیتا۔
جہاں تک تعلق ہے جماعت اسلامی کا اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہونے کا تو یہ اس کا جائزہ تاریخی حقائق سے لیا جاسکتا ہے۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ جنرل ایوب کے خلاف تحریک چلانے والی جماعت صرف جماعت اسلامی تھی۔
مولانا مودودی وہ واحد عالم تھے جنھوں نے ببانگ دہل یوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ایوب خان اپنی سوانح عمری میں اپنے لیے سب سے زیادہ مسائل کھڑے کرنے والا فرد مولانا مودودی کو قرار دیتے ہیں۔ آپ کو شاید اس بات کا علم نہ ہو لیکن جنرل یحیی خان کے مارشل لاء کے خلاف بھی تحریک جماعت اسلامی نے ہی چلائی تھی۔
ایک بات کو زہن میں اچھی طرح بٹھا لیں کہ ہر نظریاتی تحریک فکری ارتقاء کے مراحل طے کرتی ہے۔ جماعت اسلامی بھی ان مراحل سے گزری ہے اور کچھ غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں ہیں لیکن آج کی جماعت اسلامی ان ارتقائی مراحل کو طے کر کے ایک نئے نکھار کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ جدید قومی اور بین الاقوامی چیلنجز سے آشناء تربیت یافتہ قیادت جس طرز پر عوامی ایشوز پر پبلک کو آن بورڈ لے سکتی ہے، کوئی اور سیاسی گروہ ایسا افورڈ کرنے سے قاصر ہے۔ موجودہ آئی پی پیز کے مسئلے پر کسی جماعت کا موقف جماعت اسلامی کے موقف کی طرح جاندار نہیں ہوسکتا کیوں کہ آئی پی پیز کی اکثریت ان سیاسی جماعتوں کا حصہ ہے اور اسی طرح ہر دور آئی پی پیز نے مفادات سمیٹے ہیں۔
یہ ہمت اور حوصلہ صرف جماعت اسلامی دکھا سکتی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط دھڑے کے خلاف جدوجہد کرے جو ہر دور میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آرہا ہے۔