
گرمی نے تنگ کیا تو کسی ٹھنڈے مقام پر جانے کا سوچا ایسے میں بھائی ارشد کا فون آگیا پوچھا کیا کررہے ہیں بتایا کسی ٹھنڈی جگہ جانے کا سوچ رہا ہوں پوچھنے لگے کہاں جانا ہے بتایا کہ سری کوٹ جانا ہے انہیں نے کہا نام تو سنا ہے مگر گیا نہیں ارشد بھائی 34 سال سے اپنی فیملی ہے ساتھ مظفرآباد میں مقیم ہیں اور اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ جھٹ پٹ پروگرام بنا ارشد صاحب موٹر سائیکل لیکر آئے ہم نے کچھ کھانے پینے کا سامان لیا اور نکل پڑے شہید گلی تک تو بہترین سڑک ہے اس سے آگے کچی سڑک ہے جس کا مون سون کی بارشوں کے بیڑہ غرق کیا ہوا ہے بہر حال ٹھان لی تھی جیسے کیسے موٹر سائیکل کو دھکے لگا کر کہیں ڈبل سواری اکثر سنگل سواری سری کوٹ پہنچ گئے.
سری کوٹ کو دیکھ کر ارشد صاحب کہ حیرانی قابل دید تھی کہ میں مظفرآباد میں 34 سال سے ہوں لیکن سری کوٹ نہیں دیکھا۔ سری کوٹ مظفرآباد سے تقریباً 15 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے جہاں سرسبز و شاداب میدان چاروں اطراف دیودار کے جنگلات سے گھرا ہوا ہے میں دس سال قبل جب پہلے چار گیا تب وہاں مقبول چغتائی صاحب نے ایک ایک گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا سردار جاوید ایوب کہ دلچسپی سے یہاں تک ان ہی دنوں میں کچی سڑک پہنچی تھی اب اب تو یہاں متعدد گیسٹ ہاؤس بن چکے ہیں لیکن یہاں پہنچنے کیلئے سڑک انتہائی خستہ حال اور خطرناک ہے سڑک کی ری کنڈیشننگ کا ٹھیکہ ہو چکا ہے معلوم ہوا کہ چند روز میں ٹھیکیدار نے کام شروع کرنا ہے۔
لیکن سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاں صدیوں سے آباد لوگوں نے اپنی زمینوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا ہے اور تقریبآ ساری زمینی فروخت ہو چکی ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ دس سال پہلے جو طرح جنگل تھا آج بھی ویسا ہی ہے حالانکہ یہاں دیودار کے درختوں کو دیکھ کر لکڑ چوروں کی مہہ میں پانی آجاتا ہے۔ سری کوٹ صدیوں سے قدیمی گزر گاہ رہی ہے جس کی آیک جانب مظفرآباد تو دوسری جانب کے پی کے علاقے گڑھی حبیب اللہ برار کوٹ لگتے ہیں کے پی کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں سے دیودار کے درخت کاٹ کر لکڑ لیجاتے رہے ہیں لیکن اب اس پر کافی کنٹرول ہو گیا ہے۔
ابھی تک تو یہ علاقہ کافی پر سکون اور صحت افزا ہے لیکن اچھی سڑک تعمیر ہونے کا نقصان یہ بھی ہو گا کہ یہ بھی مال روڈ بن جائے گا۔
اگر اس جگہ کو بچانا ہے تو یہاں کوالٹی اور کنٹرول ٹورازم کرنا ہو گا ورنہ سری کوٹ سری کوٹ نہیں رہے گا۔