
▪︎نومبر 1910 کی ایک برفیلی اور کہر بھری صبح میں جنوبی روس کے ایسٹاپو Astapovo ریلوے سٹیشن کا سٹیشن ماسٹر ایک بوڑھے شخص کو بیہوشی کی حالت میں اپنی خوابگاہ میں لے کر آیا۔اس شخص کا چہرہ باریش اور رعب دار تھا اور اس کا چوڑا ماتھا اس کے عظیم انسان ہونے کا پتہ دیتا تھا۔ اس نے اپنے ذاتی معالج کو بلایا تو اس نے ٹاٹ کا کمبل اوڑھے؛ اس بوڑھے فقیر کا معائنہ کیا۔سردی کی شدت سے اسے نمونیا ہو چکا تھا اور اس کی حالت کافی خراب تھی۔ڈاکٹر نے اس مارفین morphine کا ٹیکہ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا لیکن پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کی روح پرواز کر گئی۔اس کے اقرباء اسے لے گئے۔ٹاٹ کا لباس پہنے سردی کی برفیلی رات میں بیہوش ہونے والا یہ فقیر اور پھر صبح نمونیے سے مرنے والا یہ غریب الوطن انسان دنیا کا عظیم مصنف اور ناول نگار "لیو ٹالسٹائی” تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
●ٹالسٹائی روس کے بڑے خاندان میں پیدا ہوا تھا اس کی عمر دو سال تھی جب اس کی ماں مر گئی اور جب وہ 9 سال کا ہوا تو اس کا باپ بھی چل بسا۔ٹالسٹائی اور اس کے بہن بھائیوں کو رشتے داروں نے پالا۔ٹالسٹائی شروع میں ایک سخت اور جارح مزاج انسان تھا ۔وہ فوج میں لفٹیننٹ کے عہدے پر بھی رہا۔ اس نے کریمین جنگ Crimean War 1855 کے دوران فوج کی نوکری اختیار کی تھی جہاں اس کی بہادری سے متاثر ہو کر اسے لفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ لیکن بعد میں اس نے دل برداشتہ یہ نوکری چھوڑ دی ۔اب ہم تفصیل سے وہ تمام حالات لکھتے ہیں جن سے متاثر ہو کر ٹالسٹائی نے روحانیت اور درویشی کا راستہ اختیار کیا اور "غیر متشدد مزاحمت”non-oppressive resistence کی تبلیغ کرنے والا داعی بن گیا ۔اور کیسے تسلیم و رضا اور ترکِ خواہش اس کے نزدیک روح کی پاکی اور مقصد کے حصول کا واحد راستہ قرار پائی:۔
●ٹالسٹائی کا دورہء یورپ اور جنگ کی تباہی:
ٹالسٹائی دو بار یورپ گیا ایک بار 1857 میں اور دوسری بار 1861 میں۔جب وہ پہلی بار یورپ گیا تو اس نے پیرس میں ایک اجتمائی عوامی پھانسی کا مشاہدہ کیا؛اس واقعے کا اس پر بہت اثر ہوا۔ اپنے ایک دوست کے نام خط میں لکھتا ہے:
"مجھے لگتا ہے ریاست کا یہ رد عمل بہت شدید ہے اور گویا اپنے ہی شہریوں کو تباہ کرنا ہے لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دنیا کی کسی بھی حکومت کی نوکری نہیں کروں گا۔”
اپنے دوسرے دورے میں وہ یورپ کے کئی فلسفیوں سے ملا اور کئی مذہبی راہبوں کے ساتھ رہا ۔وہ ان کی کتابوں سے کافی متاثر ہوا۔اس کا مزید ذکر آگے آئے گا ۔اس دورے میں ہی وہ فرانس کے مشہور لکھاری اور مفکر وکٹر ہوگیو Victor Hugo سے ملا ۔اس وقت ہوگیو نے اپنا مشہور ناول "les miseràbles”
نیا نیا مکمل کیا تھا ۔ٹالسٹائی نے وہ ناول دلچسپی سے پڑھا۔یہی وجہ ہے کی War and peace کے کئی جنگی منظر les miseràbles کے مشابہ ہیں۔ٹالسٹائی جب کازان یونیورسٹی میں علم لغت اور اخلاقی علوم کے حصول کے لیے داخل ہوا تھا تو اساتذہ اسے ایک ضدی انسان کہتے تھے جو پڑھنے سے بھاگتا ہے لیکن جنگ کی تباہ کاریاں اور یورپ کے روحانی علوم نے ٹالسٹائی کو ایک متحرک اور ہٹ دھرم انسان سے ایک غیر متشدد راہب بنا دیا۔
●دنیا کے مختلف روحانی علوم اور مذاہب کا ٹالسٹائی پر اثر:
پہلے پہل ٹالسٹائی نے جب Tirukkural کا جرمنی ترجمہ پڑھا تو وہ روحانیت کی طرف بہت زیادہ راغب ہوا۔ٹالسٹائی ہندو مت؛بدھ مت اور عیسائیت کی خانقاہی نظام اور
صبر ورضا کی تعلیم سے بہت متاثر ہوا۔خاص کر عیسائیت کے اخلاقی افکار نے اس پر بہت اثر ڈالا۔ٹالسٹائی سیدنا حضرت عیسی مسيح عليه السلام کی تعلیمات کا مرید بن گیا اور ان کے خطبات کو اپنی کتابوں میں بیان کرتا۔ اپنی کتاب What I Believe میں ٹالسٹائی نے عیسائیت کی اخلاقی تعلیم کا بہت ذکر کیا ہے اور مذہبی طور پر ٹالسٹائی سب سے ذیادہ عیسائیت سے ہی متاثر تھا۔خاص کر ٹالسٹائی عیسائیت کے اس اصول اور تعلیم سے متاثر تھا کہ:”جو تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تم دوسرا گال بھی اس کے آگے کر دو” یہ جملہ انجیل میں لکھا ہے اور ٹالسٹائی اس اصول کو برائی کو شدت پسندی کے بغیر ختم کرنے کی سب سے بڑی قوت "commandment of non-resistance to evil by force” سمجھتا تھا ۔بدھ مت کے بھکشوؤں اور عیسائی راہبوں کی درویشانہ اور صوفیت سے رنگی فکر نے ٹالسٹائی جیسےصاحب اثر معاشرتی لکھاری کو راہبانیت کا داعی بنا دیا اور اس کو اختیار کرنے کے بعد ٹالسٹائی کی تصنیفات یہاں تک کے افسانے بھی ترک دنیا کا پیغام تھے۔
●ٹالسٹائی کی تصنیفات:
ورجینیا وولف virgenia woolf نے ٹالسٹائی کو دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار قرار دیا ہے اور تھامس مان Thomas Mann نے ٹالسٹائی کے حوالے سےلکھا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آرٹ فطرت کے اتنے زیادہ قریب ہو جتنا ٹالسٹائی کے ادب میں ہے۔ "وار اینڈ پیس” اور "اینا کرنینا” جیسے شہرہء آفاق ناول لکھنے والا یہ مصنف جب فقیری اور تسلیم ورضا کی دنیا میں آیا تو اس کے افکار اس کی تصنیفات میں بھی نظر آتے تھے ۔ٹالسٹائی کی کتابیں جیسے
Kingdom of God Is Within You؛
What I Believe ؛اور Confession
سب کی سب ترک دنیا کا سبق دیتی ہیں اور ان میں ٹالسٹائی کے قلم نے لوگوں کو خواہش پرستی چھوڑنے اور روح کو پاک کرنے کا پیغام دیا ہے۔ٹالسٹائی کے کئی ایک افسانے راہبوں کی غیر شدت پسند زندگی اور شہوات کے خلاف
نبرد آزمائی کی داستانیں ہیں۔ایسا ہی ایک افسانہ Father Sergius. ہے۔میکسم گورکی کا بیان ہے کہ ایک بار ٹالسٹائی نے اس افسانے کا ایک حصہ انتو چیخوفAntov checkov کے سامنے پڑھا تو وہ دونوں آبدیدہ ہو گئے۔ٹالسٹائی نے جب راہبانیت اور صبر کو سب سے اہم چیز مانا تو اس کا قلم ان افکار کا مبلغ بن گیا۔
●ٹالسٹائی اور جرمن فلسفی آرتھر شوفینر Arthur Schopenhauer :
آرتھر شوفینرArthur Schopenhauer جرمن فلسفی تھا اور اس کے افکار بہت گہرے تھے۔وہ دنیا کو خواہش اور شہوت ختم کرنے کا پیغام دیتا تھا حالانکہ اس کا عقیدہ دہریت تھا۔ اس کی کتاب The World as Will and Representation خواہش پرستی کو چھوڑنے اور دنیا ترک کر کے روحانیت کی راہ پر چلنے کی دستاویز ہے۔ ٹالسٹائی نے اپنی کتاب A confession کے چھٹے باب میں اس کتاب کا آخری پیرا گراف ہو بہو نکل کیا ہے ملاحظہ ہو:
"خواہش پرست آدمی کے لیے خدا کا قرب پانا اونٹ کے سوئی کے ناکے سے گزرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔اس واسطے جن کو اپنی روحانی منزل اور خدا کا قرب پانے کی چاہت ہوتی ہے وہ دولت سے دور بھاگتے ہیں اور اگر قسمت ان کو امیر گھر میں پیدا کر دے تو وہ دنیا چھوڑ کر خود کسبی طور پر فقیری کی راہ اختیار کرتے ہیں۔اس لیے ہی جب گوتم بدھ ایک شہزادہ پیدا ہوا تھا تو اس نے مقصد کی خاطر گھر چھوڑ کر درویشی اور راہبانیت اختیار کی۔اسی طرح راہب فرینکس Francis of Assisi, کے ساتھ بھی ہوا۔جب وہ نوجوان تھا تو وہ ایک رقص کی محفل میں گیا جہاں اس نے کئی حسین امیر زادیاں اور نوابوں کی بیٹیاں دیکھیں؛ اس سے کہا گیا کہ تم بھی ان حسینوں میں سے ایک منتخب کر لو تو اس نے کہا کہ میں ان عورتوں سے بھی زیادہ حسین چیز اختیار کر چکا ہوں؛ جب پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے تو اس نے جواب دیا۔۔فقیری ۔ پھر اس نے کچھ ہی دن بعد دنیا کو مکمل چھوڑ دیا اور ویرانوں اور خانقاہوں میں چلا گیا ”
شوفینر کی یہ کتاب بڑی اثر انگیز ہے اور عجب نہیں کہ اس نے دولتمند روسی ادیب کو ایک راہب اور تارک دنیا بنا ڈالا تھا۔ٹالسٹائی اس فلسفی سے گہرا متاثر تھا ۔اور اس دنیا میں محبت کو سب سے بڑی سچائی مانتا تھا ۔
●لیو ٹالسٹائی۔۔۔۔مہاتما گاندھی کا نظریاتی مرشد اور مُربّی :
گاندھی کی غیر متشدد مزاحمت اور تسلیم و رضا کی پالیسی ٹالسٹائی کے افکار سے گہری متاثر تھی۔ December 1908 میں ٹالسٹائی نےانڈین کارکن ناتھ داسTarak Nath Das کو ایک خط A Letter to Hindu کے عنوان سے لکھا ۔اس خط میں ٹالسٹائی نے یہ پیغام دیا تھا کہ انڈیا کی عوام صرف اور صرف صبر اور غیر متشدد مزاحمت کے ذریعے ہی برطانیہ کی حکومت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔گاندھی ان دنوں جنوبی افریقہ میں تعلیم حاصل کرتا تھا اس کو جب اس خط کا علم ہوا تو اس نے ٹالسٹائی سے خود مراسلت کی اور اس بات کی تصدیق کی کہ خط ٹالسٹائی کا لکھا ہے۔گاندھی نے ٹالسٹائی سے غیر متشدد مزاحمتnonviolent resistance, اور شہوات کو ترک کر کے مقصد پانے کا سبق سیکھا۔ گاندھی نے یہ خط1909 میں، جنوبی افریقہ میں اپنی زیر ادارت شائع ہونے والے اخبار Indian Opinion میں شائع کروایا۔گاندھی ٹالسٹائی کے افکار سے بہت متاثر تھا اور اس نے جوہانسبرگ میں ایک اکیڈمیTolstoy Farm کے نام سے بنوائی یہ اکیڈمی 1100 ایکڑ میں تھی جہاں ٹالسٹائی کے راہبانہ نظریات کو ماننے والے اکٹھے ہوتے تھے۔گاندھی نے اپنی آپ بیتی میں ٹالسٹائی کوغیر متشدد مزاحمت اور تسلیم ورضا کے افکار کے حوالے سے دور حاضر کا سب سے بڑا مبلغ قرار دیا اور اس کی کتاب The Kingdom of God Is Within You کو بہت سراہا۔گاندھی اس کتاب کی فکر سے ہی ٹالسٹائی کے نظریات کا پیروکار بنا اور جب ہندوستان آکر اس نے تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی تو اس نے انگریز کے خلاف بات چیت اور nonviolent resistance, کی پالیسی کو ہی اختیار کیا۔اس واسطے ہی وہ چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ کی فکر کا مخالف تھا۔اس واسطے ہی شاید وہ چرخہ کاٹتا، اور فقیروں کے بھیس میں کفن جیسا لباس پہن کر رہتا۔اس نظریے کی وجہ سے گاندھی نے آخر اپنے ہی مذہب کے ایک تشدد پسند سے گولی کھائی اور ٹالسٹائی کے افکار پر عمل بند مر گیا۔
●ٹالسٹائی کی جوان بیوی:
ٹالسٹائی کا قول ہے کہ "اس دنیا میں آدمی کیلیئے سب سے اہم چیز دانشمند عورت کا ساتھ ہے”۔
ٹالسٹائی نے تجرد اختیار نہیں کیا بلکہ جب وہ ابھی تارک دنیا نہیں تھا تو اس نے 1862 میں Sophia Andreevna نامی عورت سے شادی کی جو کہ اس سے 16 برس چھوٹی تھی ۔ٹالسٹائی اپنی بیوی سے جو کہ اس کے 13 بچوں کی ماں بنی بہت محبت کرتا تھا۔لیکن راہبانہ زندگی اختیار کرنے کے بعد اس کی بیوی بہت خفا رہتی تھی اور اپنی آخری عمر میں درویش ٹالسٹائی اس سے بہت تنگ آگیا تھا اور مرنے سے چند دن قبل ٹالسٹائی نے اپنی بیوی سے تنگ آکر ہی ایک برفیلی سرد رات کو گھر چھوڑ دیا۔یہ اس کی وہی بیوی تھی جسے اس نےشادی کی پہلی رات اپنی نوجوانی کے معاشقے سنائے تھے اور جس نے ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کو لکھنے میں ٹالسٹائی کی بہت مدد کی تھی اور اپنے اس ادیب شوہر کے 13 بچوں کو جنا تھا ۔
●ٹالسٹائی کی موت :
ٹالسٹائی نے نومبر کی ایک سرد رات اپنا گھر چھوڑ دیا اور فقیرانہ لباس پہنے جنگلوں کو نکل گیا ۔مرنے سے کچھ عرصہ پہلے وہ انسان کی موت اور انجام کے حوالے سے باتیں کرتا تھا ۔روس کے ایک ریلوے سٹیشن پر جا کر وہ مسافروں کو ترک دنیا؛صبر اور تسلیم ورضا کا درس دیتا رہا۔اور وہاں ہی سردی کی شدت سے بیہوش ہو گیا ۔لوگوں نے ڈاکٹر کو بلایا اور گھر والوں کو بھی اطلاع دی لیکن نمونیا کی شدت سے نڈھال82 سالہ ٹالسٹائی مر گیا۔
~آب بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے
اپنے سب سے بڑے ناول میں نفسانی محبت کے مکالمے لکھنے والا زندگی کی آخری سانسوں میں عشق حقیقی کا پیغام دیتا رہا ۔ٹالسٹائی کے جنازے میں غریب کسانوں کا بڑا رش تھا حالانکہ وہ ٹالسٹائی کو جانتے نہ تھے ان کے نزدیک یہ ایک اچھے اور نیک انسان کا جنازہ تھا۔
●ٹالسٹائی کے فلاحی کام:
ٹالسٹائی نے یورپ کی سیاحت سے واپس آکر اپنے علاقے میں کسانوں کے بچوں کے لیے 13 سکول بنوائے جن میں سے بہت سے جنگ کے فسادات سے تباہ ہو گئے تھے۔ٹالسٹائی غریبوں کا مددگار تھا اور قحط کے دنوں باقاعدہ امداد جمع کرتا تھا۔
●۔ٹالسٹائی کے حکمت بھرے جملے:
☆۔۔۔۔۔وقت اور صبر دو سب سے بڑے جنگجو ہیں۔
☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم خوش ہونا چاہتے ہو؛؛؛تو ہو جاؤ۔
☆۔۔۔۔۔۔۔تمام خوش گھرانے ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ تمام غمگین گھرانے اپنے اپنے انداز میں غم کے ستائے ہوتے ہیں ۔
☆ ۔۔۔۔۔۔۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اکثر کو یہ دھوکہ ہے کہ خوبصورتی ہی اچھائی ہوتی ہے۔
☆ ۔۔۔۔۔۔۔زندگی کا واحد مقصد مخلوق کی خدمت ہے۔
☆۔۔۔۔۔۔۔تم اس وقت ہارتے ہو جب تم خود سے کہتے ہو کہ تم ہار گئے ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(☆۔مشہور مغربی نقاد میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا کی ٹالسٹائی کا لکھا آرٹ کا حصہ نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہوتا ہے)۔