
شمس بری کے دامن میں چاروں طرف سے پہاڑوں کےدرمیان گھرا ہوا خوبصورت گاؤں نوکوٹ ہے ۔جس کا شمار لیپہ ویلی کے سب سے بڑے گاؤں میں ہوتا ہے۔
نوکوٹ اپنے اندر مکمل کشمیری کلچر سموے ہوۓ ہے۔اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ نوکوٹ کے لوگوں کی ثقافت اور رہن سہن بلکل ویسے ہی ہے جو ایک تاریخی خالص کشمیری کلچر کی روایت ہے۔شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی ،غمی کے باقی رسم و رواج بالکل کشمیری تہذیب و ثقافت سے مزین ہیں۔
نوکوٹ میں خالص کشمیری زبان بولی جاتی ہے اور یہی زبان مادری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔نوکوٹ میں کشمیری طرز تعمیر کے حامل لکڑی سے بنے ہوۓ بڑے بڑے ڈبل سٹوری اور ٹرپل سٹوری مکان آپ کو ہر طرف نظر آتے ہیں اور سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے ان گھروں کو دیکھنے کے لیے.
نوکوٹ میں ایک پانچ منزلہ لکڑی کا بنا ہوا کافی پرانا گھر ہے جسے کشمیری طرز تعمیر کے شاہکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور سیاح اسے شوق سے دیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔آخروٹ کی لکڑی پر خوبصورت ڈیزائن کی کارونگ کشمیری کارونگ کے نام سے شہرت پانے والا فرنیچر کشمیری دستکاریوں اور کشمیری ثقافت کا حصہ ہے۔
یہ کشمیری ثقافتی ورثہ جو کہ اب محدوم ہوتا جا رہا ہے اس کے تحفظ کے لیے نوکوٹ میں کشمیری کارونگ والے فرنیچر کے کارخانے موجود ہیں۔اور اس کے علاوہ نوکوٹ میں ایک خوبصورت سیر گا رینج کولہ کے نام سے مشہور ہے جہاں پر عموما کرکٹ اور والی بال کے ٹورنامنٹ ہوتے ہیں ۔
نوکوٹ کے چاول کے تہہ دار کھیت بہت مشہور ہیں اور ان کھیتوں میں ہونے والے چاول کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ نوکوٹ میں بہت اعلی نسل کے اخروٹ ہوتے ہیں اور یہ اخروٹ یہاں سے اسلام آباد منڈی اور پھر وہاں سے پورے پاکستان اور بیرون ملک جاتے ہیں اور یہ اپنا برینڈ ٹریڈ مارکہ ” نوکوٹ کی گری ” سے مشہور ہیں۔اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کا ذریعہ معاش اخروٹ کے کاروبار سے اور کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے سے جڑا ہوا ہے۔
آبادی زیادہ ہونے اور روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے روزگار کی تلاش میں یہاں سے لوگ راولپنڈی اور مظفرآباد کی طرف رخ کرتے ہیں۔نوکوٹ میں اس وقت مختلف سرکاری اور پرائیویٹ سکول موجود ہیں۔نوکوٹ میں گرلز ہائی سکول بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ نوکوٹ میں ایک بوائز ہائی سکول بھی ہے ۔بوائز ہائی سکول کا شمار لیپہ کے معیاری اداروں میں ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے نوکوٹ گاؤں میں محکمہ صحت کی جانب سے بیسک ہیلتھ یونٹ موجود ہے۔خواتین مرد حضرات کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی ہیں کھیتی باڑی اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال میں ۔
نوکوٹ میں شرح خواندگی 95 فیصد سے زیادہ ہے ۔تحریک آزادی کشمیر میں شہدا کی قربانیوں کی لسٹ میں ایک بڑی تعداد کا تعلق نوکوٹ سے بھی ہے اسی لیے اس کو شہدا کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے. نوکوٹ گاؤں کے درمیان سے ایک بہت بڑا نالہ بہتا ہے جو گاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے شرقی اور غربی اس نا لے کا منبہ شمس بری پہاڑ ہے ۔اسی نالہ پر مختلف مقامات پر چاول اور آٹے کی الگ الگ چکیاں بنی ہوئی ہیں جو کہ پانی کے باؤ کے زور سے چلتی ان چکیوں کو دیکھنے میں سیاح بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی نالہ کے پانی سے گاؤں کے کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے ۔
نوکوٹ میں مختلف قومیں آباد ہیں جن میں خواجہ، بٹ، لون ،میر ،ملک اعوان وغیرہ ہیں ۔تمام قبائل اتفاق سے رہتے ہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہو گاؤں کے معززین بیٹھ کر اسے حل کر لیتے ہیں۔ اسی گاؤں کے نام پر یونین کونسل کا نام نوکوٹ ہے.