

یوں تو تحریکوں میں اتار و چڑھاؤ کا آ نا ایک فطری بات ہے۔کبھی آ پ کامیابی اور کامرانی کی منازل طے کررہے ہوتے ہیں اور دشمن شکست و ریخت سے دوچار رہتا ہے اور کبھی آ پ کو مسلسل نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور دشمن آ پ کے نقصان پر شادیانے بجا رہا ہوتا ہے۔یہ تو کشمکش کا حصہ ہے اور یہی کشمکش آ پ کو متحرک اور فعال رکھتی ہے۔اسی کشمکش کی کوکھ سے نئے امکانات جنم لیتے ہیں اور یہی کشمکش آ پ کو نئے افراد کار بھی فراہم کرتی ہے۔اسی کشمکش سے تحریکی قافلے رواں دواں رہتے اور تحریک میں شامل افراد اپنی اپنی نیت، ظرف اور نصیب کے مطابق اجر سمیٹتے رہتے ہیں۔ یہ کشمکش اور دشمن سے پنجہ آ زمائی تحریکوں
کے لئے آ کسیجن کا کام کرتی ہے اور اس کشمکش کے نتیجے میں ہی تحریکیں میچور اور توانا ہو جاتی ہیں اور اپنی منزل کیطرف گامزن رہتی ہیں۔تو پھر تحریکوں کے لئے اصل خطرہ کیا ہے اور تحریکیں ناکام اور نامراد کیوں ہو جاتی ہیں؟اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے اور ذہن نشین کیجئے کہ تحریکوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک وہ لوگ جو تحریک میں ہر وقت اپنے ذاتی مفادات و مراعات کو سمیٹ رہے ہوتے ہیں اور جونہی ان کے منہ سے مفادات اور مراعات کی چوسنی الگ ہو جاتی ہے وہ آ سمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ان کا سارا خبث باطن باہر آ جاتا ہے۔وہ کل تک
تحریکی بزرگوں کی کرامات بیان کررہے ہوتے ہیں اور پھر وہ بداخلاقی اور بدزبانی پر بھی اتر آ تے ہیں۔انہیں پھر ہر جگہ اور ہر بات میں کیڑے نظر آ تے ہیں اور یہ لوگ پھر ہر خاص و عام کو تحریک کے عیب اور نقائص گن گن کر بتا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں۔یہی لوگ آ ستین کے سانپ کہلاتے ہیں۔ اپ انہیں دودھ پلاتے رہیں تو یہ آ پ کو شاہ سے
زیادہ شاہ کے وفادار نظر آتے ہیں۔
دوسرا کردار ان لوگوں کا ہے جو کبھی منصب،مفاد اور مراعات کے قریب بھی نہیں پھٹکے ہوتے ہیں۔یہ تحریکی تعلق اور وفاداری کو کبھی مفاد اور مراعات کے ترازو میں نہیں تولتے۔ان کی نظریں ہمیشہ اللہ پر جمی رہتی ہیں۔یہ لوگ داد و تحسین کے طلبگار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں خوش آ مدی سے کوئی سروکار رہتا ہے۔
چونکہ یہ دوسرے کردار کے لوگ مفاد کا دامن جھاڑ چکے ہوتے ہیں لہذاانہیں کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ تحریک میں موجود مفاد پرست لوگ ان کی اس مثبت سوچ اور حرکت کو "جسارت اور گستاخی” کے طور پر سمجھے گے اور پیش بھی کریں گے لیکن اس کے باوجود بھی وہ مثبت اور راست تنقید کا وظیفہ جاری رکھتے ہیں۔ہم نے تحریکوں کے عروج و زوال کے مطالعے میں یہی بات اخذ کی ہیں کہ یہ جو دوسرے کردار کے حامل لوگ ہوتے ہیں یہی تحریکوں کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔انہی سے تحریکیں زندہ اور تابندہ رہتی ہیں۔یہی لوگ تحریکوں کی سمت کو درست رکھنے میں "قطب نما” کا کام کرتے
ہیں ۔یہ آ خری صفوں سے بھی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ان کا کوئی منصب نہیں ہوتا۔ان کی وردی پر کوئی چاند تارہ بھی نہیں لگا ہوتا۔انہیں لوگ پہچانتے بھی نہیں ہوتے۔ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوتا۔لیکن یہ وفادار اور مخلص ہوتے ہیں۔ان کو اپنی تحریک، نصب العین اور مقصد سے اس قدر عشق ہوتا ہے کہ یہ کسی کی بے رخی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔کوئی بڑا ان کے سر پر دست شفقت رکھے یا نہ رکھے انہیں اسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی انہیں اہمیت دے یا نہ دے یہ لوگ تب بھی تحریک
کی آ بیاری میں محو اور مگن رہتے ہیں۔یہ لوگ رویوں اور برتاؤ سے بھی متنفر نہیں ہوتے۔یہ لوگ قدم قدم پر اذیتیں تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن ایک لمحے کے لئے بھی اپنے عظیم مقصد کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔یہ لوگ عیاشیوں اور مراعات کی بنا پر کبھی تحریک کے ساتھ چمٹے نہیں رہتے بلکہ ان کا شعور اور اخلاص انہیں ہر طرح کے حالات میں تحریک کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔یہ محرومیوں اور مجبوریوں کے عالم میں بھی تحریک تحریک کی تسبیح پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
۔۔جاری ہے۔۔