
ویسے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا۔لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو انسانی زندگی تین ادوار پر مشتعمل نظر آ رہی ہے۔
پہلی زندگی بلوغت کے بعد تقریبا 20 سال بعد شروع ہوتی ہے۔ایک مثال دیکر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں فتوی دینے والے دوست ہلکی سائیڈ پر رہیں۔
پہلا دور۔۔۔۔
جب زندگی کی بندر بانٹ ہو رہی تھی تو گدھے کو 40 سال جینے کو ملے لیکن اس کا موڈ نہیں تھا شاید اتنا جینے کا۔اس نے 20 سال انسانی نما حیوان کو دے دیے۔یہی 20 سال بندہ بیس سے 40 سال گدھے کی طرح کام کرتے کرتے گزار دیتا ہے۔سردی گرمی ۔دھوپ چھاوں میں کام کرتا رہتا ہے ۔اور گدھے سے کم نہیں کرتا ۔لہذا 40 سال تک گدھے والی زندگی کا اختتام اس عمر میں ہوتا ہے۔
دوسرا دور۔۔۔۔۔
اب زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے، اس کے پیچھے کہانی یہ لگتی ہے کہ کتے کو جو جینے کے 30 سال ملےاس نے انسان کو گفٹ کیے۔تو 40سے 60 تک انسانی نما مخلوق کتے کی طرح ادھر ادھر پڑے رہتے چھپتے چھہاتے گزرتی ہے۔کسی کی اولاد نہیں سن رہی تو کسی کی فائننشل پوزیشن ٹھیک نہیں، کسی کا گھر تعمیر نہیں ہو رہا تو کسی کو دیگر معاشرتی مسائل کا سامنا رہتا ہے، ہو وہی رہا ہوتا ہے جو نیچر کر رہی ہوتی ہے لیکن کیونکہ دماغ ہے اس کے پاس تو لڑتے بھڑتے حالات سے انسان کتے والا وقت گزار رہا ہوتا ہے۔
تیسرا دور۔۔۔۔۔
اب زندگی کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جو الو نے بندے کا گفٹ کیا تھا۔کیونکہ الو کو بھی 40 سال عمر ملی اس نے بھی عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور 20 سال انسان کو گفٹ کیے۔
تو 60 کے بعد نہ وہ انرجی رہتی ہے نہ ہی کوئی حالات رہتے ہیں تو انسان بس الو کی طرح بیٹھا بس منڈی ہلاتا رہتا ہے۔اور حالات کو پلٹے کھاتے دیکھتا رہتا ہے۔
اب اوسط عمر مانگے تانگے کی ہم گزار کے قبر میں چلے جاتے ہیں۔
اب اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس کا نہ مجھے معلوم نہ آپ کو ۔۔لہذا کوشش کریں جانوروں کی گفٹ کردہ عمر کو اپنے حساب سے گزاریں اور زندگی کے کچھ مزے لیکر مریں ۔
نہ کہ گدھے کی طرح کام کرتے کتے کی طرح ذلیل ہوتے اور الو کی طرح گھورت گھورتے۔