
تحریر….. عابد ہاشمی
وادی لیپہ ایک خوبصورت مقام ہے سیاحوں کی نظروں سے اوجهل لیکن زمیں پر جنت کا ایک ٹکڑا گرا ہوا ہے ۔ سادہ مزاج لوگ لیکن بلا کے مہمان نواز۔ سیاحوں کی آمد کے باوجود سیاحتی علاقوں کی نسبت لالچ حرص حوس لوٹ مار اور نفسا نفسی کا دور دور تک نام و نشاں تک موجود نہیں ۔
یہاں گیسٹ ہاؤس اس معیار کے تو نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کا اخلاق ان سہولیات سے محروم چھوٹے چھوٹے ہاؤسز اور ان کے سادہ کمروں کو فائیو سٹار ز سے کہیں زیادہ سٹار ز اور چاند بھی لگا دیتے ھیں ۔بیڈ آرام ده نہیں لیکن میز بان اور مالک گیسٹ ہا ؤ س کی طرف سے بار بار آ کرحال احوال کھانے پینے اور دیگر مسائل بارے معلوم کرنا مسلے کو یو ں ختم کرتا ھے جیسے لوہے کو مقناطیس کھینچ لیتی هو ۔
کچھ کمی کوتاہیا ں بھی ہوں گی انسانوں کا معاشرہ ھے وه بھی ایسے انسان جن کو پہاڑوں کے دامن پر دشمن کے رحم و کرم پہ چھو ڑ دیا گیا هو۔
لوگوں کی سادگی اور اعلی پائے کی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ چا لاقی نام کی کوئی چیز نہ ملے تو سمجھ لیجیے آپ لیپہ پہنچ گئے ھیں ۔
اس سادگی کو اکثروزیٹرز ان لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا تے ھیں انہیں اپنے آپ سے کئی ہزار سال پیچھے شمار کرتے ھیں تو کچھ انہیں جد ت سے نا آ شنا بھی کہتے ھیں ان کی سا دگی کو مختلف نام بھی دیتے ھیں جو یہاں اس خد شے کے پیش نظر نہیں لکھے جا رھے کہ زمیں پر موجود فرشتہ صفت لوگوں کے لیے ایسے الفاظ لکھنے کے بارے ہمارے قلم میں تو سکت نہیں ھے ۔
اگر کسی نے جنت زمیں پر دیکھنی ھے تو لیپه کو دیکھے اور اگر جنت کے مکیں زمیں پردیکھنے ھیں تو بارہ هزاری کے قدموں میں رہنے والوں کو دیکھ لے اگر کسی نے فرشتے زمیں پر دیکھنے ھیں توشمس بری کے مکینوں کو جا دیکھے۔
یہ فرشتے دیکھنے میں شوخ نہیں ھیں ان کے چہروں پر مصنوئی چمک بھی نہیں ھے ۔جعلی ہمدری کا رڈ بھی ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا کیوں کہ ہمدردی کی جیتی جا گتی تصویر ھیں ۔
ہم نے تو والدین اور بچو ں کو بھی محض مال و ذر کی بنیاد پر همدردی اور رشتے کے بندهن میں بندها دیکھا ھے لیکن وادی لیپه میں اجنبی اور بن دیکھے هوؤں کی خیریت و خوشیو ں کی دعا ئیں کرنے والوں کو اس قحط انسا نیت کے دور میں اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ھے۔پھریو ں بھی لکھنا پڑ ا کہ انسانوں کو مال و ذر شا ن و شوکت جاہ و جلال اور دنیا کی رنگینیوں کے رنگ میں رنگا ہوا دیکھ کر عزت و جد ت کے معیار قائم کرنے والوں کو انسانیت کی الف اور ب کی بھی معلومات نہیں ھیں جوانسان کی بے بسی کو بیکورڈ اور جہالت کا نام دے کر اپنے ھی اندر چھپی ہوئی شیطانیت اور جهالت کا اظہارکرتے ھیں کمی کو تا ہیا ں ہر جگہ هو تی ھیں غلطیو ں سے ما ور ا کوئی نہیں۔
کسی علاقے یا اس علاقے کی محرومیاں وہاں کے لوگوں کے چہروں سے عیاں هوتی ھیں۔ان کی سادگی کو اپنی چا لاقی کے معیار سے پرکھنے والے ان کی جہد مسلسل اور ان کے مسائل بارے کیا جانے ۔گوناں گوں مسائل پل پل مسائل میں رہنے والے پھر بھی ہنستے ھیں پھر بھی دوسروں کی خوشیوں کی بات کرتے ہیں تو یہ لوگ انسانیت کے اعلی معیار پر فائز ھیں ۔
یہ رب کریم و رحیم کے بہت قریب کے لوگ ہیں گو کہ دنیا کے خداؤں نے انہیں اپنی اسائیشو ں کیلئے بھلی چڑھا رکھا ھے ۔ایسے لوگ حرص و حوس کی منڈ ی کے بیو پا ری ھیں جن کو دنیا میں مفاد اور نفع کے علاوہ کچھ بھی یاد نہیں اور نہ کسی سے کوئی غر ض ھے۔
دشوار گزار علاقے پیدل چلنا بھی محال لیکن یہاں کے باسی اشیائے ضروریہ کندهوں پہ اٹھا کر لے جانے پر مجبور ھیں جہاں ایک عام آدمی خالی ہاتھ بھی سو قدم نہ چل سکے ۔
گو کہ یہ علاقہ حکومتی عدم دلچسپی کی زندہ مثال ھے یو ں محسوس هو تا ھے کہ یہ مظفرآباد میں بیٹھے ہوئے جھنڈا و کرسی داروں کے لیے ایک بوجھ ھے اور یہ اس علاقے کو کوہ قاف سمجھ کر کسی دیو کے حوالے کرنے کو ہر وقت تیار بیٹھے ہوں ۔
یہاں سے الیکشن لڑنے والے نہ جانے کون سے منہ کے ساتھ عوام کی خدمت کی بات کرتے ہیں اور عوام سے ووٹ وغیرہ کی مد میں کچھ مانگتے ھیں۔شرم سے ڈ و بنا ھے تو وادی لیپه کے حالات کو دیکھ کر ڈوب جانے کے لیے ارباب اقتدار کو ذرا بھی دیر نہیں لگا نی چا ھیے ۔عوامی محرومیو ں کا حال یہ ھے کہ وھا ں موجود چھو ٹے چھوٹے ہسپتال میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر کسی سیر یس مریض کو مظفر آ با د جانے کی چٹ بھی لکھ کر نہ دیتے ہوں گے کیوں کہ طویل اور مشکل سفر مریض کو اگلے جہاں کے سفر کی طرف دھکیل سکتا ھے ۔