
کسی نے سچ کہا ہے کہ دل انسانی جسم میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ دماغ اس کا وزیر اور تابع فرمان ہے۔ دل میں خواہشیں اور تمنائیں پیدا ہوتی ہیں۔ دماغ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ پہناتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہم کشمیر کی خوبصورت ترین وادی لیپہ (کرناہ) کی سیر کا پروگرام بنا رہے تھے لیکن ہر بار کوئی مصلحت کوئی مجبوری ہمارے اس سفر میں رکاوٹ بن جاتی تھی۔ اس دفعہ اچانک ہمارا لیپہ ویلی کا پروگرام فائنل ہو ہی گیا۔ ہم پانچ لوگ وادی لیپہ (کرناہ) کی زیارت کے لیے مری کوہالہ کے رستے مظفر آباد سے ہوتے ہوئے لیپہ ویلی کی جانب گامزن تھے تو پیر پنجال کی گھاٹیوں سے جھاگ اڑاتا ہوا دریائے جہلم ہمارے سفر کو محسور کن بنا رہا تھا۔ دریائے جہلم کوہ ہمالیہ پیر پنجال کے دامن میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا کنٹرول لائن کی دوسری جانب یعنی مظفرآباد سے میرپور کی جانب بہتا ہے۔ یہ دریا زندگی کا سرچشمہ ہے جو انسان کے منفی رویوں سے بے نیاز اپنی فیاضی لْٹاتا ہوا رواں رہتا ہے۔
مظفر آباد شہر سے لیپہ ویلی کا زمینی فاصلہ لگ بھگ ایک سو کلو میٹر ہے۔ اس خوبصورت راستے میں آنے والے چیڑ، کائل، چنار اور دیودار کے درختوں کی دیدہ زیب رونقیں پرندوں کی مسحور کن آوازوں سے مزید دلکش ہو جاتی ہیں۔
آپ مظفرآباد سے نکل کر ہٹیاں بالا جسے اب جہلم ویلی کہا جاتا ہے کے بازار سے لیپہ ویلی کی جانب مڑیں تو آسمان کی جانب بل کھاتی سڑک پر چڑھتے ہوئے پہلے چیڑھ کے درخت آپ کو نظر آئیں گے پھر جیسے جیسے آپ بلندی کی جانب بڑھتے جائیں گے بیاڑ کے سرسبز درخت آپ کا استقبال کرنا شروع ہوں گے۔ بیاڑ کا درخت اس بات کی علامت ہے کہ آپ گرم علاقے سے نکل کر کسی ٹھنڈے علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔
ہٹیاں بالا سے داؤ کھن تک مسلسل چڑھائی ہے جہاں سیاحوں کی تفریح کیلئے دیدہ زیب مناظر ہیں یہاں کے مقامی ہوٹل میں دیسی دودھ کی بہترین چائے آپ کی تھکاوٹ دور کرنے کا بہترین سامان ہے۔ قدرتی حُسن سے مالا مال یہ علاقہ اپنی شباہت میں جنت نظیر ہے۔ ہمارا پہلا پڑاؤ اسی داؤ کھن ہوٹل میں تھا۔ اس کے اردگرد کی فلک بوس چوٹیاں بے حد نظر افروز ہیں۔ یہاں پر سوائے ایس کام کے تمام تر موبائل فونز کے نیٹ ورکس بند ہو جاتے ہیں۔
کچھ دیر قیام کے بعد ہم لیپہ ویلی کی طرف روانہ ہوئے تو اب آگے کا یہ سفر نشیب کا سفر ہے۔ لیپہ کسی حسین لڑکی کا نام ہوتا تو اس کے دل تک اترنے میں اتنی مشقت نہ اٹھانی پڑتی جتنی لیپہ ویلی تک پہنچنے میں اٹھانی پڑتی ہے۔
لیپہ کی تاریخ سے واقف میرے ایک دوست کے مطابق کسی قدیم زبان میں لیپہ ”پہلی رات کی دلہن” کو کہا جاتا تھا۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے تو علاقہ کی خوبصورتی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یقینا اس حسینہ پر یہ نام جچتا بھی ہے۔ کیونکہ داؤ کھن سے لیپہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں کم وبیش دو درجن موڑ کاٹنے پڑے تب جا کر کہیں ہم لیپہ ویلی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
جس اکلوتی سڑک پر ہم رواں دواں تھے مقامی لوگوں کے مطابق وہ برف باری کے دنوں میں مکمل ڈھک جاتی ہے۔ فطرت پہاڑوں پر بہت مہربان ہے اسی لیے پہاڑوں کا دامن قدرتی وسائل اور دلآویز نظاروں سے بھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر محتاط ہو کر چلنا پڑتا ہے۔ خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکر بھی ہو سکتی ہے۔ نظاروں کی کشش میں کھو کر غیر محتاط ڈرائیور کھائی میں جا گرتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوتے ہوتے رہ گیا جس کے بچاو کا سارا کریڈٹ یقینا گاڑی ڈرائیو کرنے والے کو جاتا ہے۔
لیپہ ویلی ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم سے پہلے ضلع کپواڑہ کا حصہ تھی اور اسے ”کرناہ ویلی” کہا جاتا تھا۔ لیکن اب تحصیل لیپہ آزاد کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کا حصہ ہے۔ وادی لیپہ ریشیاں، داؤ خان، لیپہ، نوکوٹ اور چننیاں کے حصوں میں تقسیم ہے۔ یہاں کے مشہور سیاحتی مقامات نوکوٹ، چننیاں، منڈا کلی، بارہ ہزاری اور تریڈا شریف ہیں۔
اسلام آباد سے جب ایک روز قبل لیپہ ویلی جانے کا پروگرام بنا اور طے ہوا کہ ہمارے ساتھی عابد ہاشمی اور ملک اویس کی قیادت میں قافلہ صبح سویرے روانہ ہو گا۔ قافلے میں عقیل انجم، مفتی نذیر اعوان اور آخری آدمی راقم الحروف شامل کیا گیا۔ وعدے کے مطابق ہمیں اگلی صبح پانچ بجے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ جمع ہونا تھا۔
میں دنیا دار بندہ رات دو بجے روم میں پہنچنے کے باوجود چار بجے کا الارم لگا کر لیٹ گیا کہ باقی سارے بلا کے اسلامی اصول پسند ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے کسی کا اصول ٹوٹے یا تکلیف پہنچے لیکن ابھی بمشکل میری آنکھ لگی ہی تھی کہ موبائل پر لگے الارم نے دی گئی زبان پوری کرنے کی آواز دی تو کوئی لمعہ ضائع کیے بغیر جلدی سے اٹھا اور تیار ہو کر باقی احباب سے رابطہ کرنے کی کوشش میں لگ گیا کہ سارے یقینا مجھ سے زیادہ وقت کے پابند ہوں گے لیکن اس بار بھی ایسا میرا وہم ہی ثابت ہوا اور دوستوں نے اگھٹا ہونے اور نکلنے میں صبح کے سات بجا دیے۔
خیر بات چل رہی تھی لیپہ پہنچنے کی تو نشیب و فراز کے پرخطر سفر کے بعد ہم اپنے دوست اور میزبان اقبال اعوان کے گاؤں چک مقام داخل ہوئے تو وہ ہمارے استقبال کے لیے راستے پر موجود تھے۔ میزبان نے پہلے سے لیپہ لاجز گیسٹ ہاؤس چکمقام وادی لیپہ کرناہ میں ہمارے آرام کا بندوست کر رکھا تھا۔ گیسٹ ہاؤس کے مالک سید عباس بخاری اور سید وقار بخاری نے واقعی میں گھر سے باہر گھر کا سا ماحول فراہم کیا۔ وہاں پہنچ کر سبھی نے تھوڑی دیر سکون کیا۔ یہاں سے آگے ہم نے اقبال اعوان کے گھر کا رخ کرنا تھا جو منحوس خونی لکیر سے محض چند فرلانگ پر واقع ہے۔
لیپہ میں اقبال بھائی کی بھابھی چند روز قبل حادثاتی موت کا شکار ہوئیں تھیں وہاں گھر جا کر ہم سب نے تعزیت کی اور والدین اور خاندان والوں سے ملاقات کی۔ اقبال بھائی کے والد محترم نے کچھ ماضی کے قصے سنائے جن سے انکا خلوص سادگی اور بے پناہ محبت چھلک رہی تھی خاص کر والدہ نے جب ایک ایک ساتھی کو نام سے پہچانا تو بے پناہ خوشی اور اپنائیت کا احساس ہوا۔ والدہ سے بے شمار دعائیں سمیٹنے کے بعد وہی دیسی کھانوں خاص کر دیسی "چٹنی” سے بھرپور ڈنر کیا پھر والدہ ہی کے ہاتھوں کی بنی چائے پی جو ہمیشہ انکے خلوص محبت اور شفقت کی یاد دلاتی رہے گی۔
رات قیام کے بعد صبح نیند سے بیدار ہوئے گیسٹ ہاؤس مالک نے بتایا کہ اگر آپ چاہیں تو قریب سے گزرنے والے مشہور نالہ قاضی ناگ کے چشمے پر جا کر نہا سکتے ہیں جہاں ٹھنڈے ٹھار پانی کا چشمہ اور ساتھ عارضی طور پر غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ہمیں اپنے گاؤں کا ماضی یاد آ گیا جب زلزلہ سے قبل یونہی چشموں پر جا کر ہم نہایا کرتے تھے۔ باقی سب نے خوشی کا اظہار کیا لیکن ہمارے لاڈلے عقیل نے یہ کہہ کر آفر قبول نہ کی کہ یہاں نہانے کے تقاضے پورے نہیں ہیں۔
وہاں پر ہی میزبان نے بتایا کہ قریبی ہوٹل میں صبح سویرے سے تیار ناشتہ ٹھنڈا ہو گیا ہے اور اگر آپ کہیں تو اسے گیسٹ ہاؤس ہی منگوا لوں جس پر ہم نے کہا کہ ایسے ٹائم ضائع ہو جائے گا ہم سب ہوٹل میں ہی چل کر ناشتہ کر لیتے ہیں۔ ہوٹل پہنچ کر دیکھا تو ابھی ایک بابا جی لکڑیوں سے آگ جلانے کی کوشش کر رہے تھے، پھر دیر بعد آگ جلی ناشتہ تیار ہوا اور ہم نے ناشتہ کر کے لیپہ بازار کا رخ کیا۔ راستے میں میزبان بتاتے رہے کہ لیپہ بازار نہیں بلکہ بڑا شہر ہے لیکن وہاں ایسا کچھ نہ تھا۔ لیپہ بازار کے انٹری پوائنٹ پر سڑک خطرناک حد تک خراب ہونے کے باعث سوائے ڈرائیور کے سب کو گاڑی سے اترنا پڑا جس کا فاہدہ یہ ہوا کہ بازار میں پیپلز پارٹی کے نامور جیالے سابق امیدوار شوکت نواز میر سے ملاقات ہو گئی جنھوں نے حلقہ کے سیاسی حالات پر خوب روشنی ڈالی۔
اس حلقہ سے اس وقت منتخب ممبر اسمبلی دیوان علی خان ہیں جبکہ سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر بھی یہاں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ شوکت نواز میر یہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق شوکت نواز میر ہی یہاں کے وہ واحد نمائندہ ہیں جو ہمہ وقت لوگوں کو دستیاب رہتے ہیں۔ لیپہ بازار سے گزر کر ہم تاریخی سیاحتی مقامات کی جانب گئے جن میں نوکوٹ سر فہرست ہے۔ یہاں کی خوبصورتی دیکھ کر آپ کو واقعی میں احساس ہو گا کہ لیپہ کو پہلی رات کی دلہن کیونکر کہا جاتا ہے۔
لیپہ سے گزرتے ہوئے بہتے پانیوں کے بیچ لکڑی سے بنی دکانیں اور کہیں کہیں کچے مکانات نظر آرہے تھے۔ وسیع وعریض میدانوں میں پھیلی سرسبز و شاداب لہلہاتی فصلیں تہ دار قطعوں کی صورت بہت دیدہ زیب لگ رہی تھیں۔ یہاں دھان اور مکئی کے کھیت سیڑھیوں پر بچھائے ہوئے قالین کی طرح دل افروز ہیں۔ یہاں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں سے پیاس بجھانے والوں کی کمی تو نہیں لیکن بلند و بالا پہاڑوں کی ہیبت لرزہ طاری کر دیتی ہے۔
لیپہ ویلی کا سب سے حسین مقام نوکوٹ گلی ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں پھیلے ہوئے دھان کے کھیتوں کا نظارہ عجب سرشاری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ شمس بری سے ڈھلتے شمس کو دیکھنا یقیناََ زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا۔ گہرے بادلوں سے جھانکتی پہاڑوں کی چوٹیاں اور سورج کی نرم و مدھم کرنیں رنگوں کی قوسِ قزح بنا رہی تھیں۔
لیپہ ویلی آزاد کشمیر کا سب سے خوبصورت لیکن سب سے بدقسمت حلقہ ہے۔ یہاں کنٹرول لائن کا وہ منظر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے جب ایک جیسے علاقے اور انسانوں کو دو ملکوں نے اپنی انا اور ذاتی مفاد کیلئے تقسیم کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہاں ہماری طرف سے زیادہ تکلیف دہ منظر یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر زیادہ تر ہماری سول آبادی آگے ہے جبکہ ہندوستان نے اپنی طرف سے سول آبادی کو پیچھے کر کے آگے فوجی یونٹیں تعینات کر رکھی ہیں۔ یہاں سمیت پوری کنٹرول لائن کا المیہ ہے کہ گولی جس طرف سے بھی چلتی ہے نشانہ کشمیر کی سول آبادی ہی بنتی ہے۔
انتہائی دور دراز اور منحوس خونی لکیر کے اوپر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں بہت ہی زیادہ کٹھن ہیں۔ مرکزی روڈ کسی حد تک قابل استعمال ہے لیکن باقی روڈوں، رستوں، سرکاری عمارتوں اور یہاں بسنے والے لوگوں کی حالت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ علاقہ حکومتی ثمرات سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں کے لوگ جتنے زیادہ پرخلوص، نرم دل، مہمان نواز اور سادہ ہیں اتنے ہی ذہنی و فکری طور پر پسماندہ معلوم ہوتے ہیں۔ ہٹیاں بالا سے لے کر لیپہ کے ٹاپ بارہ ہزاری تک ہر خوبصورت جگہ پر آپکو فوجی یونٹیں نظر آتی ہیں جو یقیناً اپنے لوگوں کی حفاظت کیلئے تعینات کی گئی ہیں۔ لیپہ ویلی پہنچنے تک بھی آپکو نصف درجن سے زاہد مقامات پر تعینات فوجی چوکیوں پر اپنی لازمی انٹری ریکارڈ کرانا پڑتی ہے۔
لیپہ ویلی کے لوگوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ یہاں کے آخروٹ، سیب، دالیں اور جڑی بوٹیاں ہیں۔ یہاں کے کاغذی اخروٹ اور لوبیا کی دال پوری ریاست بلکہ پاکستان بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں لوگوں کا طرز رہاش قدیم ہے۔ رہائش کے لئے زیادہ تر لکڑی کے مکانات ہی بنائے جاتے ہیں۔ یہاں سال بھر میں کل چھ ماہ کی ہی زندگی ہوتی ہے جس میں لوگ سال بھر کا غلہ جمع کرتے ہیں اور باقی کے چھ ماہ کے سخت موسم میں وہی خوراک استعمال کر کے زندگی کے دن گزارتے ہیں۔ لیپہ کے پہاڑوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں آج تک گاڑی نہیں دیکھی۔
یہ لوگ اپنی ساری زندگی انہی پہاڑوں پر بسر کر جاتے ہیں۔ یہاں اپکو بڑی عمر کے کافی زیادہ بزرگ نظر آئیں گے البتہ پورے لیپہ بازار میں آپکو دیسی دودھ کی چائے ملنی مشکل ہے اس کی وجہ شاہد یہ ہے کہ یہاں دودھ فروخت کرنے کا رواج کم ہے۔ واپسی پر میزبان اقبال اعوان نے اپنے روایتی خلوص بھرے انداز میں لیپہ بازار سے الوداع کیا۔ اس جنت نما وادی کی دل آفریں، نظر افروز اور روح پرور یادیں اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اور یوں ایک یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔
ر