
وادی لیپه سے دو دها ئیو ں کا تعلق ھے بلکہ یو ں کہا جاۓ کہ زندگی کے خوبصورت ترین دن اور راتوں کی شنا سا ئی ھے ۔یہی وجہ ہے کہ وادی لیپه اور اہلیا ن لیپه کی خوبصورتی کو سمجھنے میں کوئی دشوار ی نہیں ھے ۔یہ وادی انڈ ين پو سٹو ں کے خصا ر میں گھری ہوئی ھے کہیں کہیں تو قابض افواج کی پو سٹیں اتنی قریب ھیں کہ ان کی آوازتک سنی جا سکتی ھے۔کچھ پہا ڑ ی سلسلے بھارت کے زیر قبضہ ہیں جو وادی لیپه کے اندر تک آ ئے ہوئے ھیں ۔فائر بندی سے قبل تک یہاں کے لوگ انتہا ئی مشکلات کا شکار تھے۔
جب فائرنگ هو تی تو کئی کئی دن تک جاری رہتی اور رکنے نہ پا تی ۔لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مورچے بنا رکھے تھے جوزندگی بچا نے کے لیے ڈھال کا کام دیتے تھے ۔اکثر گھر فائرنگ سے متاثر ہوئے اور کچھ مکمل طو ر پر تباہ ہوئے۔تباہی کے یہ مناظر آج بھی دیکھے جا سکتے ھیں۔لوگ آج بھی اچھے گھر بنانے اور معیاری تعمیر سے گھبرا تے ہیں کیونکہ ہر کوئی اس خدشے کا شکار ہے کہ جانے کس وقت کوئی چنگا ر ی اٹھے اور یہ شعلے ان کے آشیا نو ں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں۔جس میں قیمتی جانوں کے ضیاع سمیت کئی طرح کے خطرا ت منڈ لاتے رہتے ھیں۔
نوے کی دہائی کی دها ئی یہاں کے باسیوں کے لیے انتہا ئی پر خطر اور جان لیوا تھی ۔روزانہ بھارتی افواج کی فائرنگ سے جنازے اٹھتے جس میں لوگ اپنے پیا روں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تهک جاتے مگر دشمن غارت گری سے نہ تھکتا ۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس فائرنگ کے دوران یہاں کے لوگ ڈ ٹے رھے اور کسی نے یہاں سے ہجر ت نہ کی بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات اٹھاۓ اور اپنے علاقے کو نہ چھو ڑ ا۔یہی وه دیدہ دلیر ی ھے جو ایل اؤ سی میں بسنے والے باقی لوگوں اور وادی لیپه والوں کو منفرد بنا تی ھے۔فائر نگ کے دوران لوگ بھوکے پیاسے کئی کئی روز مورچے کے اندر گزار دیتے اورباہر نہ نکل پا تے۔اس صورتحال میں پاک افواج کے علاوہ اهليان لیپه کی کوئی مدد کو نہ آیا یہی وجہ ھے کہ پاک فوج اور لیپه کے عوام ایک مظبوط رشتے میں پرو ے ہوئے ھیں جن کو کوئی سا ز ش الگ کرنے میں کامیاب نہ هو سکی ۔
آج بھی لیپه میں افواج پاکستان کے جوانوں اورمقامی نوجوانوں کے مابین دوستانہ ایونٹس هو تے ہیں۔جتنی خوبصورتی سے اللّه نے ان پہا ڑ وں کو لیپه کی رونق بنایا ھے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔پہا ڑ وں کی خوبصورتی تو ایک طرف یہ پہا ڑ لوگوں کو بھی اپنی طرح بلندحوصلہ بناتے ھیں ۔پہاڑ وں کے رہنے والے لوگ حوصلہ مند هو تے ھیں اور کسی بھی مشکل سے گھبرا تے نہیں بلکہ پہا ڑ جیسا حوصلہ رکھتے ھیں۔ وفا ؤ ں کے بھی کوہ هماليه هو تے ھیں۔
14 اگست کی صبح ہم پانچ دوست اور "دشمن "وادی لیپه لیے عازم سفر ہوئے۔اس سفر کا مقصد ہمارے ایک مشترکہ دوست اقبال اعوان صاحب کی بھابی کی وفات کے بعد اظہار تعزیت کے لیے تھا۔گو کہ سفر دشوار اور دور دراز تھا لیکن ہمارے ارادے بھی بارہ هزاری جیسے تھے۔اس لیے ہم نہ رک پائے ۔وجہ یہ بھی تھی کہ اقبال اعوان صاحب ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے دن اور رات دشوار اور کوئی مشکل یا کوئی بھی حالات نہیں دیکھتے اس لیے ہمیں بھی ارادہ مظبوط کرنا ھی پڑا۔یہ سفر سیر و سیاحت کے لیے ہرگز نہ تھا بلکہ تعزیت کی غرض سے تھا لیکن اس کے باوجود لیپه کی خوبصورت وادياں گھاٹیاں اور درے ہمیں گا ڑ ی روکنے اور ان خوبصورت لمحات کو کیمرے میں قید کرنے پر مجبور کر دیتے۔
اس روڈ کے خطر ناک ہونے کے لیے صرف اتنی ھی مثال کافی ھے کہ اجنبی لوگ جب اس علاقے میں ڈرائیو کرتے ہیں تو لازمی حادثے کا شکار هو تے ھیں ۔چڑھا ئی اور اترا ئی میں گا ڑ ی چلا نے کا فارمولا ہے جسے اپلا ئی نہ کرنے سے گا ڑ ی جا سکتی ھے اور جان گا ڑ ی کے اندر هو تو جان بھی گا ڑ ی کے ساتھ ھی جاتی ھے۔ایسی روڈ پر بریک کا سہا را نہیں لیا جاتا بلکہ ڈ ا ؤ ن گہر کی مدد سے رفتار انتہا ئی کم کر کے گا ڑ ی کو قابو کیا جا سکتا ھے ۔بصورت دیگر جو لوگ بریک کاسہارا لے کر اتر ا ئی اتر نے کی کو شش کرتے ھیں تو بریک گرم هو کر اپنا کام چھو ڑ دیتی ھے ۔ہمارے ساتھ بھی جو پائلٹ تھے وه بھی اسی انداز سے گا ڑ ی کے ساتھ سلوک کر رھے تھے تاکہ جلدی پہنچ سکیں اور پہنچنے سے پہلے واپس آ جا ئیں۔لیکن پھر وھی ہوا بریک کام چھو ڑ گئی اور90 ڈگری میں ہمیں بے سہارہ چھو ڑ گئی جسے پائلٹ نے اپنی کمال چا لاقی سے کنٹرول کیا۔وہیں قریب ھی پاک فوج کی پوسٹیں تھیں جنہوں نے گا ڑ ی ٹھنڈ ی کرنے کے لیے پانی فراہم کیا اور گپ شپ کی ۔ایل اؤ سی سے متعلق آگاہی فراہم کی اور پوسٹو ں سے متعلق بریف کیا۔
تقریبا آدھا گھنٹا گزرنے کے بعد ھم نے دوبارہ سفر شرو ع کیاجہاں اقبال اعوان صاحب ہمارا انتظار فرما رھے تھے ۔پھر ہم ان کی رہنمائی میں چک مقام میں لیپه لاجز گیسٹ ہا ؤ س پہنچے جو بخاری برادران کا گیسٹ ہا ؤ س ھے جہاں کچھ دیر آرام فرمایااور چاۓ پی۔اس کے بعد اگلی منزل اقبال اعوان صاحب کا گھر تھا جہاں فاتحہ خوانی کرنا تھی ۔اقبال صاحب کا گھر ایل اؤ سی کا آخری گھر ہے اس کے بعد چند میٹر کے فاصلے پر انڈ ين پوسٹ ھے ۔اقبال صاحب نے دو آ پشن دیے گھر کی نشاندھی کی اور بتایا کہ کم سے کم 45 منٹ کی شدید قسم کی ہا ئیكنگ ھے۔
یاد رھے یہ منٹ مقامی تھے جو ہمارے لیے کم سے کم پونے دو گھنٹے ثابت ہوئے لیکن اقبال صاحب اس سے قبل ہمیں دو آ پشن دے چکے تھے ۔اسی گیسٹ ہا ؤ س میں فاتحہ پڑھ لی جاۓ اور کھانا یہیں پر منگوا یا جاۓ جسے ہمارے دو نازک مزاج "دشمن نما "دوستوں نے قبول فرما لیا لیکن ماجد افسر صاحب اور راقم نے اس آ پشن کو”کفر” کی طرح رد کر دیا۔بلکہ ماجد صاحب نے تو اسے کفر سے بھی بد تر قرار دیا کہ ہم یہاں آ ئیں اور اقبال صاحب کی والده و والد سے ملے بغیر واپس جا ئیں تو یہ ہماری بد قسمتی هو گی۔ہمارے سخت گیر موقف کو نازک مزاجوں کے موقف پر ترجیح ملی اور آخر ہماپونے گھنٹے والا سفر شرو ع هو گیا جو پونے دو گھنٹے تک جاری رها۔سفر شرو ع ہونے کے ساتھ ھی اقبال صاحب کے بہنو ئی نے بائیک سٹارٹ کیا ھی تھا کہ ہمارے ساتھ همسفر عقیل انجم صاحب سیکنڈ سیٹ پر براجمان هو گئے ۔وه سمجھ رھے تھے کہ یہ بائیک گھر تک جاۓ گی لیکن یہ سب وہم تھااور چند فرلانگ کے بعد بائیک کا سفر ختم هو گیااور عقیل صاحب زمیں پر آ گئے ۔ہمارا سارا گروپ چلنے میں تقریبا ٹھیک تھا لیکن عقیل انجم صاحب کچھوا سپیڈ تھے جو جلد ھی تهک کر گر گئے ۔کئی جگہ رکنے کے بعد وه منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اقبال اعوان صاحب کا گھر خلوص اورپیار محبت کا محل ھے۔ان کے والدین ہم سب کو نام سے جانتے ہیں گو کہ کچھ لوگوں کی پہلی ملاقات تھی۔وه اپنی دعاؤ ں میں اقبال صاحب کے دوستوں کو لازمی شریک رکھتے ھیں۔اقبال صاحب کے گھر میں کھانا تیار تھا۔دیسی مرغی ۔ساگ ۔دھی ۔سبزی چاول اور دیگر خوشبو دار کھانے لذت سے بھر پور تھے ۔کھانے کے بعد اقبال صاحب کی والده نے خود چاۓ بنائی۔تب تک ہم نے گھر کے قریب بنا ہوا مورچہ دیکھا گھر کی بیک سائیڈ پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا اور سامنے کے علاقے دیکھے جو ہمیں قدموں میں دكهائی دے رھے۔چاروں طرف پھیلی ہوئی هريا لی حیرت میں ڈال رهی تھی۔اقبال صاحب کا چھو ٹا بھا ئی جس کی ایک سال قبل شادی ہوئی تھی۔اپنی بیگم کے پیار میں اس قدر محو رھے کہ ایک سال کا عرصہ گھر میں ھی گزار دیا۔اس جو ڑ ے کی لو میرج کا ذکر سن کر لیلی و مجنوں اور تاج محل کی یادیں تازہ هو جاتی ھیں ۔اقبال صاحب کی والدہ نے مختصر الفاظ میں اس جو ڑ ے کی محبت کی جو کہانی سنا ئی وه الف لیلو ی کردار تھی ۔دونوں ایک دوسرے کے آرام کا اتنا خیال کرتے کہ ایک دوسرے سے چھپ کر دوسرے کے کام کر دیتے۔
اقبال صاحب کا بھائی اپنی بیوی کی وفات پر بہت افسردہ ھیں بلکہ زندگی سے ھی مایوس هو گئے ھیں لیکن ہمارے سب دوستوں نے اپنے اپنے طرز پر ایک غمگین شخص کا شاندار طر یقے سے دل بهلايا ا ور هنسنے پر مجبور کیا۔ہماری کوشش کامیاب ہوئی اور زندگی دوبارہ شروع کرنے پر اما ده هو ا ۔لیپه میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کا چھن جانا معمولی بات ھے کیوں یہ علاقہ کسی بھی حکومت کے بغیر چل رها ھے اور الیکشن لڑنے والے پانچ سال بعد منہ دکھا تے ھیں اور پھر وہاں کا رخ نہیں کرتے ۔وادی لیپه کے لوگوں کا معاشی گذر بسر مقامی سطح پر پیدا ہونے والا چاول ۔اخروٹ ۔لوبیہ مکئی اور دیگر دالیں اور لائیو سٹاک کا نظام ھے ۔جو اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کیا جا رها ھے جس میں ریاست کوئی سپورٹ کرتی ھے اور نہ ھی کوئی تکنیکی معاونت کرتی ھے ۔
سواۓ ٹیکس لینے اور ووٹ لینے کے سوا حکومت سیاسی جماتیں سیاسی وركر ز کچھ بھی نہیں کرتے۔اقبال صاحب کے گھر سے پید ل واپسی کا سفر بھی اتنا آسان نہ تھا۔اتر ا ئی کا سفر بھی چڑھا ئی جیسا دشوار تھا۔90 ڈگری سے نیچے اتر نابھی آسان نہیں هو تا ۔شام آٹھ بجے ہمیں لیپه کے مقامی صحافی حافظ ابرار اعوان صاحب کے ایک ایونٹ میں شرکت کرنا تھی لیکن شدید تهكن کی وجہ سے ہم مزید چلنے کے قابل نہ رھے اور بیڈ پر گر پڑے ۔عباس بخاری صاحب اور وقار بخاری صاحب نے اپنے طور پر جو گیسٹ ہا ؤ س بنایا ھے ایک خوبصورت جگہ پر ھے اور خوبصورتی سے انے والے مہمانوں کو ٹر یٹ کیا جاتا ھے۔ہاسپیٹلٹی کی مثال ھے ۔شب بسر ی کے بعد صبح کیسے ہوئی جیسے چند منٹ بعد سورج نکل آیا هو ۔جب انسان تھک جاۓ تو اس نیند اور آرام کا بھی اپنا ھی مزہ هو تا ھے ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ مزدور نیند کی گولی نہیں کھاتا اور جاگنے سے زیادہ سونے میں مزہ لیتا ھے ۔جہاں حور وں کا ظہور هو تا ھے اور شاید مہے و جام پلا کر ساقی کا کردار ادا کرتی ھیں۔روزانہ یہی ریہر سل هو تی ھے اور صبح بہت سویرے چڑیوں کی چہچا ہٹ میں دن کا آجا لہ هو جاتا ھے ۔اور مزدور دوبارہ مشقت کے لیے نکل پڑتا ھے۔یہاں صبح کا منظر بھی عجیب تھا گیسٹ ہا ؤ س والے بخاری صاحب ہمیں لے کر ایک چشمے کی طرف چل پڑے جہاں ٹھنڈ ا یخ پانی ہمیں فریش کرنے کے لیے منتظر تھا۔یہ علاقہ چک مقام کہلا تا ھے جو لیپه سے پانچ کلو میٹر پہلے ھے ۔ہم سب نے غسل کیا لیکن ہمارے ایک سینیر دوست نے پانی کے قریب نہ جانے کی قسم کھا رکھی تھی وه اس نعمت سے محروم رھے اور بغیر غسل کیۓ واپس ہوئے
جاری ھے