
تحریر: مجاہد ذاکراللہ
وہ کھلہاڑی جو کبھی اس کھیل میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا، وہ ماسٹر ماٸینڈ کہ جس کے اک اشارہ ابرو سے کھیل کی بساط سی پلٹ جاتی تھی اب أس کھیل کا بارہواں کلھہاڑی بھی نہیں۔ وہ دور کہیں دور بیٹھے ایک تماش بین کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
وہ باٸیکاٹ کی صورت سارامیلہ لوٹ لیتا تھا۔ بنا کھیلے سارے میڈل اپنے گلے کی زینت والے اس کھلہاڑی کو اب سمجھ آچکا ہوگا کہ یہ سارا کھیل بنانے والا کون تھا، جس کی محنت اور کاوشوں کا ثمر ہم دو دو ہاتھوں سے کا ٹتے تھے۔
بقول شاعر::
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی۔۔۔۔۔
گٹھن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی!!!۔
وہ لاحق عارضوں سے بھی دو دو ہاتھ کررہا تھااور سیاسی دشمنوں سے بھی پنجہ آزماٸی میں بھی مصروف تھا۔کاغذی گھوڑے دوڑانے والے اپنے ہم وطنوں اور ہم عصروں کی سوچ کے بھی بکھٸیے ادھیڑ رہا تھااور سازشی عناصر کی سرکوبی کا بھی کام انجام دے رہا تھا ۔سیزفاٸر لاٸن کے دونوں جانب نوک قلم سے دہشت گردی کی آبیاری اور بھارتی مفادات کی فصل کاشت کرنے والے دانشورں سے بھی برسر پیکار تھے۔وہ میدان میں کھڑے اور ہر محاز پر ڈ ٹے ہوٸے تھے۔
یہ ٢٠١٠کی بات ہے بھارتی صحافی کلدیپ نٸیرنے ان لاکھوں نوجوانوں جنہوں نے نعروں ، پتھروں اور غلیلوں سے بھارتی جبر کے تمام بتوں کو اوندھے منہ گرا کر سامراجی غرور اور گھمنڈ کو زمین بوس کیا۔
ان نوجوان کو بھارتی صحافی نے اپنے مضمون ”بپھرے نوجوان “ میں یہ کہہ کر تذلیل کرنے کی کوشش کی کہ ان نوجوانوں کو احتجاج کرنے کا عارضہ لاحق ہوچکا ہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ ایک leaderless تحریک ہے اور بہت سارے اپنے بھی
اس بات کی جگالی کرتے ہوٸے نہیں تھکتے تھے کہ ہماری قوم ایک leaderless قوم ہے۔
حالانکہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ یہ leaderlessتحریک نہیں۔یہ سرکٹی تحریک نہیں بلکہ سر کٹوانے والوں کی تحریک ہے۔یہ بے مقصد کی اچھل کود اور جنونیت نہیں بلکہ ایک بامقصد عشق ہے۔ کب تاریخ میں ایسا ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں نے سڑکوں پر بے مقصد اپنی جوانیاں نچھاور کی ہیں۔ جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے ہاتھ میں کس کا پتھر ہے۔ اور اس کا نشانہ کون ہے۔
حالانکہ ایک دنیا جانتی تھی یہ نوجوان کس کو اپنا لیڈر اور مسیحا سمجھتے تھے۔کس کے حکم پر اپنے روزہ مردہ کے معمولات کا کلینڈر ترتیب دیتے تھے۔
یہ سید علی گیلانی ہی تھا جس کے اشارے پر کشمیر کی نبض رواں ہوتی تھی اور رکتی تھی۔ سید علی گیلانی کو یہ مقام کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا تھا۔
یہ ان کی زندگی کی جمع پونجی تھی۔ یہ اس کرشماتی شخصیت کی ساری عمر کا حاصل تھا، یہ تاج ہند کو اپنی قوم کی عزت وناموس کی خاطر جوتے کی نوک پر رکھنے کا صلہ تھا۔
وہ اپنی قوم کو باٸیکاٹ کی راہ پر لگاتے تھے تو پورا بھارت بھاری قوت صرف کرنے کے باوجود ریاست کے طول و عرض میں %5ٹرن آوٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا۔ ہر پولنگ بوتھ پر ہو کا عالم طاری رہتا تھا۔
اب سید علی گیلانی رہے اور نہ ہی کوٸی جماعت رہی یہ سارا کچھ آپ کی حکمت عملی کا کیا دھرا ہے۔
آپ کی اسی ناقص پالیسی نے نہ صرف حزب المجاہدین کو مزید تنہا کردیا بلکہ ان باشعور آزادی پسند نوجوانوں کو بھارت نواز سیاسی گدھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔