
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے اپیل پرسماعت کی ، رجسٹرار نے 63 اے تفصیلی فیصلہ سے متعلق کی رپورٹ پیش کی ، صدر سپریم کورٹ بار نے نظرثانی تاخیرسے دائر کرنے کوتسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا مفادِعامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیرکونظراندازکیاجاسکتا ہے
بانی پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کہا کہ کل کے دلائل بہت میٹھے تھے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آج کے دلائل کل سے بھی زیادہ میٹھے ہوںگے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے یعنی آپ کوکل کے دلائل پسند آئے تھے، جسٹس نعیم افغان نے کہاکہ شیریں اورتلخ کی ملاوٹ سے ہی ذائقہ بنتاہے
علی ظفربولےآج تلخ دلائل دوںگابانی پی ٹی آئی سےکیس پرمشاورت کرنی ہے وہ سابق وزیراعظم اوردرخواستگزارہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی ، علی ظفر بولے مطلب میری درخواست کومسترد کررہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے مشاورت کرنی تھی توکل بتاتے، کوئی حکم جاری کردیتے
دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پرآ گئے اورکہا کہ
پانچ رکنی لارجربنچ غیرآئینی ہے،ہمارا پانچ سووکیل باہرہے، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتےہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ
آپ کے اس رویےسے جوتھوڑی بہت ہمدردی تھی بھی ختم ہوگئی،
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہاکہ علی ظفرصاحب کیسے یہ وکیل بات کررہے ہیں ، یہ وکیل ہمیں دھمکی دے رہے ہیں، علی ظفرنے مصطفین کاظمی سے لاتعلقی کا اظہارکیا جس پر مصطفین کاظمی دوبارہ روسٹرم پرآگئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ علی ظفرصاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اورہمیں بےعزت کریں؟ ہم یہ ہرگزبرداشت نہیں کریںگے، ججزسے بدتمیزی کایہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا اس پراب پروگرامزہوںگے چیف جسٹس قاضی فائزعیسی بولے
کمرہ عدالت سے یوٹیوبرزباہرجاکراب شروع ہوجائیں گے چیف جسٹس نے سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کووکیل کوکمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا
وکیل علی ظفر نے دوبارہ دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ کیس میں فریقین کونوٹس جاری کرنا ضروری تھا، یہ طریقہ کاردرست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے،بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ یہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل بولے آپ اداروں کوایسے چلانا چاہتے ہیں؟ روزکہا جاتا ہے ججوں کے دوگروپ ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے
ایک سابق چیف جسٹس نے کتنےاراکان پارلیمنٹ کوجیل بھیجا؟ ثاقب نثارنے آپ کے کتنے اراکان پارلیمنٹ جیل بھیج دیئےتھے،میرا گناہ ٹھہرا کہ میں برداشت کرتا ہوں، میری والدہ نےکہا تھا جوکہتا ہے وہی ہوتا ہے،
علی طفرنے کاروائی میں ہونے والے واقعہ سے خود کوبری الزمہ قراردیا
تو چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس کے ذمہ دارہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تونہ چلائیں، علی ظفربولے اس معاملے پرآپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں پریکٹس اینڈ پروسیجرکیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی،کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنادے توکیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججزکی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ عام انتخابات اپ کی پارٹی کی درخواست پرہوا اس وقت گالیاں کیوں نہ دی؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہمارے ایک جج صاحب نےکچھ لوگوں کی ضمانت دی تھی، میں نے انہیں کہا آج کل اپ کے بڑے چرچے ہیں،
جج صاحب کاجواب تھا یہ لوگ اپنے خلاف فیصلہ سن کرمجھے گالیاں بھی دے چکے ہیں عزت سے بڑی کوئی چیزنہیں ہوتی،بہت کہا جاتاہے ہم ججزپتہ نہیں کتنی تنخواہیں لےگئے، ہماری تنخواہوں سے زیادہ توآپ وکلاء کمائی کا ٹیکس دیتےہیں، علی ظفرنے جسٹس منصورعلی شاہ کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے چیمبر ورک کا ذکرکردیا توچیف جسٹس نے کہاکہ
میرے اعمال میں شفافیت تھی، سمجھتا تھا قانون کوبل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلاکرایک قانون کوختم کرسکتے ہیں؟
میری نظرمیں میرے کولیگ نےجولکھا وہ آئین اورقانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھناچھوڑدوں توکیا سپریم کورٹ بند ہوجائے گی؟ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی کے وکیل کا بنچ پراعتراض مسترد کردیا
چیف جسٹس کاعلی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے کہا فیصلہ سنا دیں توہم نے سنا دیا، سب ججز کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بنچ پر اعتراض کو مسترد کرتے ہیں، چیف جسٹس نے مزید کہاکہ آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں توپھرسنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جوکوئی سننا نہیں چاہتا تھا
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں انکارکرسکتا ہوں؟ کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی چیف جسٹس نے کہاکہ یہاں توفیصلوں کورجسٹرارسےختم کروایا جاتا رہا، میں نے بینچ میں انہی ججزکوشامل کرنے کی کوشش کی،کوئی اکار کرتا ہے تو کسی کومجبورنہیں کرسکتا کیا ہمارے پاس اختیارہے کہ زبردستی کسی کوپکڑکربینچ میں لائیں؟ اگرچیف جسٹس کا موڈ اچھا نہ ہو،ایکسیڈنٹ ہوجائے اورمیٹنگ میں نہ پہنچے توکیا سپریم کورٹ بند ہوجائےگی؟
علی ظفر نے بنچ کی تشکیل پرپھر اعتراض کیا تو چیف جسٹس نے کہاکہ
آپ ججزکا انتخاب خود نہیں کرسکتے ایسا طرزعمل تباہ کن ہے، فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لوگوں کویہاں مرضی کے بینچ کی عادت ہے، وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آچکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی علی ظفر بولے اچھی بات ہے تو چیف جسٹس نے کہاکہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کاکفارہ کریں، اب ہم جوکرتے ہیں بتادیتے ہیں، سابقہ دورواپس نہیں آنےدیںگے،عدالت نے علی ظفر کو بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی اجازت دیتے ہوئے کہاکہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی