
ایک بزرگ بیمار ہوئے گھر والے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کروا کر بزرگ کے گھر والوں کو کہا اس سے لے جاؤ اس کی خدمت کرو جو مانگے دے دو جو کرے کرنے دو کیوں کہ بزرگ کو لاسٹ اسٹیج کا کینسر تھا ۔
قدرت نے انسان کے لئے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہے ۔
کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے
کیا کھانا ہے کتنا کھانا ہے
یھاں تک کہ کب سونا ہے اور کب جاگنا ہے
سب کچھ پری ڈیفانڈ (predefined ) ہے ۔
ہمارے معاشرے میں آج کل اکثریت بچے بوڑھے زن و مرد کینسر کی لاسٹ اسٹیج (last stage) والی زندگی گزار رہے ہیں ۔
جو دل کرے کرتے ہیں ۔
جو مرضی ہے کھاتے ہیں ۔
یہاں تک کہ سونے کے ٹائم جاگتے ہیں اور جاگنے کے ٹائم سوتے ہیں ۔
مطلب ہم ایسے معاشرتی کینسر میں مبتلا ہو چکے ہے جس کا علاج ہم 60 سال کی عمر میں جا کر مسجد ، مندر ، چرچ یا کلیسا میں دھوئیدننے جاتے ہے پر اس وقت تک یہ کینسر لا علاج ہو چکا ہوتا ہے