
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے میں قانون کی بجائے غیرقانونی اصلاحات کی بھرمار ہے، بانی پی ٹی آئی کے عکیل علی ظفر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو پر بھی اعتراض اٹھایا اور جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ کے خطوط پر بھی توجہ دلائی، نظر ثانی اپیل پر جب بینچ تشکیل کیا گیا تو جسٹس منیب اختر اس کا حصہ تھے، تاہم جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی، لحاظہ جسٹس منیب اختر کی جگہ ایک دوسرے جج کو بینچ میں شامل کرلیا گیا۔
تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ جلد بازی میں نظر ثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا اعتراض بے بنیاد ہے، آئینی دفعات کو ذاتی پسند اور اخلاقیات سے بدلنے سے گریز کرنا چاہیے، کوئی مخصوص جج اگر صحیح، غلط، اخلاقی یا غیر اخلاقی سمجھتا ہے تو قانون ہے اور نہ ہی آئینی، قانون سازی کرنے والے اخلاقیات پر مبنی قانون سازی کر سکتے ہیں لیکن عدالت نے صرف دیکھنا کہ کیاقانونی اور کیا غیرقانونی ہے، اگر جج کسی قانون کی تشریح کرتابھی ہے تو پیرامیٹرز کے اندر رہ کر اصولوں کے مطابق کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی کے سربراہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر کسی ارکان کو منحرف قرار دے، اگر پارٹی سربراہ منحرف قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو پہلے اسے رکن کو شوکاز نوٹس دینا ہوتا ہے، اگر رکن پارٹی پالیسی کیخلاف جانے کی کوئی معقول وجہ بیان کر دیتا ہے تو ہوسکتا ہے پارٹی سربراہ منحرف قرار نہ دے، یہ پارٹی سربراہ کا ہی صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی رکن کے منحرف ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا، فیصلہ لکھنے والے اکثریتی ججز نے پارٹی سربراہ کا یہ صوابدیدی اختیار خود کو دے دیا۔