
تجویز دی کہ وفاقی آئینی عدالت پانچ ججز پر مشتمل ہوگی۔۔ جس کی سربراہی چیف جسٹس آئینی عدالت کریں گے۔۔
پیپلز پارٹی کے مسودے کے مطابق ہر صوبے سے چیف جسٹس باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف جسٹس مقرر ہوں گے۔۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔۔ عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہوگی جبکہ وفاقی آئینی عدالت کسی بھی صوبے میں عدالت لگاسکے گی۔۔
ڈرافٹ میں پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184ختم کرنے کی تجویز دی۔۔ جس کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا اختیار ختم ہو جائے گا۔۔ یہ بھی تجویز دی کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔۔ اس پر کسی بھی فورم پر اپیل نہیں ہوسکے گی۔۔
پیپلزپارٹی نے تمام صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی۔۔ مسودے کے تحت۔۔ آئینی عدالتوں کے ججز کی تعیناتی کے لیے آئینی کمیشن آف پاکستان بنایا جائے گا۔۔ جس کے سربراہ چیف جسٹس آئینی عدالت ہوں گے۔۔
ڈرافٹ کے مطابق چیف جسٹس آئینی عدالت کی نامزدگی پر سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا ریٹائرڈ جج بطور ممبر شامل ہوگا۔۔ وزیر قانون و پارلیمانی امور اور اٹارنی جنرل کمیشن کے ممبر ہوں گے۔۔ پاکستان بار کونسل کی نامزدگی پر سپریم کورٹ کا ایک وکیل بھی شامل ہوگا۔۔
پیپلزپارٹی کے ڈرافٹ کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اپوزیشن اور حکومت کے برابری کی بنیاد پر دو، دو رکن شامل ہوں گے۔۔ ججز کی تعیناتی کیلئے قائم کمیشن گیارہ ممبرز پر مشتمل ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں سے ججز کو ہٹانے کیلئے سپریم آئینی کونسل اپنی سفارشات دے گی۔۔