
تحریر۔۔۔۔روشن دین دیامری

خیبر پختونخوا، خاص طور پر کرم ایجنسی اور اس کے اطراف کے علاقے، ایک عرصے سے فرقہ واریت کے مسائل کا شکار ہیں۔ یہ تنازعات صرف مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر قتل و غارت گری تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگیوں کی بے قدری کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں معاشرے کے ہر طبقے، بشمول علماء، مشیران، عمائدین، اور عوام کو ایک مشترکہ اور سنجیدہ موقف اپنانا ہوگا۔
فرقہ واریت کے مسائل صرف مذہبی یا علاقائی تنازعات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ان منفی رویوں اور پالیسیاں کا نتیجہ ہیں جو ماضی میں ضیا الحق کے دور جیسے نظاموں نے پروان چڑھائیں۔ ان رویوں نے معاشرتی تفرقے کو بڑھاوا دیا اور آج تک اس کے اثرات ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مذہبی اور مسلکی تعصبات سے باہر نکالیں اور خالص انسانی بنیادوں پر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ پارا چنار یا دیگر متاثرہ علاقوں میں جو خونریزی ہو رہی ہے، وہ انسانیت کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس قتل و غارت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا کے مشیران، عمائدین، اور علماء کھل کر سامنے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

ریاستی اداروں کی بے حسی اور عوام کی خاموشی مزید تباہی کو جنم دے رہی ہے۔ ریاست کی موجودہ حالت، جہاں انسانی خون کی کوئی قیمت نہ ہو، ایک خطرناک مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وقت جاگنے اور عمل کرنے کا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور اتحاد کا مظاہرہ کریں .
اگر ہم نے آج اس مسئلے کو نظرانداز کیا تو آنے والا وقت انسانیت کے لیے اور زیادہ سنگین ہوگا۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانی اقدار کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ ہماری اخلاقی، سماجی، اور انسانی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسی فضا قائم کریں جہاں ہر انسان کی زندگی کی قدر ہو۔
بصورت دیگر، ہم ایک ایسی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔