
مجھے” کریکٹر لس”عورتیں پسند ہیں… بہت خوبصورت ہوتی ہیں… بے باک، بے پردہ، بے پروہ، آزاد اور مضبوط… پنجرے میں قید چڑیا کتنی بھی رنگین کیوں نہ ہو اور چاہے کوئی کتنی بھی نظمیں لکھ لے اس پر، وہ خوبصورت نہیں لگتی. لیکن درختوں جنگلوں وادیوں میں اڑتی چڑیا کس قدر خوبصورت لگتی ہے؟
کردار ہے کیا؟
کردار غلامی ہے، کردار غیر قدرتی، فطرت مخالف اور کسی سے آزاد انسان ہونے کا حق چھیننے والی شرائط اور انسٹرکشنز ہیں… کردار نام ہے اپنی خواہشات کو مارنے کا، خود کو دوسرے کی غلامی میں دینے کا، خود کو مارنے کا، ہر ظلم چپ کر کے سہنے کا، جانور بن کر جینے کا… ایک باکردار عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت کھل کر چیخنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، آس پاس کی عورتیں اسے درد کو خاموشی سے برداشت کرنے کا کہتی ہیں… ہر باکردار عورت خوفزدہ، کمزور، احساس کمتری کی ماری اور مایوس ہوتی ہے.
مجھے آزاد عورتیں پسند ہیں وہ جنہیں یہ معاشرہ بدکردار کہتا ہے. وہ جو آزادی سے جیتی ہیں. کھل کر ہنستی ہیں زور کے قہقہے لگاتی ہیں… اور اگر انہیں تکلیف ہوتی ہے تو انکی تکلیف سے زمین گونج اٹھتی ہے… جو روٹی بناتے ہوئے اچانک سے ناچنے گانے لگ جاتی ہیں… کسی کی انسٹرکشنز پر نہیں چلتیں. بارش میں دوپٹہ اتار کر نہانے والی بدکردار عورت سے خوبصورت کیا ہو سکتا ہے؟ کون زیادہ خوبصورت ہے کسی کونے میں دبی خاموش باکردار عورت یا بے پرواہ ہو کر کھل کر قہقہے لگاتی بدکردار عورت…