
1445ہجری ہے۔ دنیا میں ایک عجیب افراتفری شروع ہے۔ انٹرنیٹ نے زمین سے اوپر ایک نئ دنیا بسا دی ہے۔ مصنوعی ذہانت ہی اصلی ذہانت بننے جارہی ہے۔ Mo Gawadat نے اپنی کتاب Scary Smart میں لکھا ہے کہ جلد ہی مصنوعی ذہانت جذبات کی حامل بھی ہو جائے گی۔اسکے بعد اقدار کا نظام یکسر ختم ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سری کے مقابلے میں روس کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی معاون ایلس کی مثال دی جس نے تشدد پر ابھارنا شروع کر دیا۔ اسی طرح مائیکروسافٹ کی تیار کردہ معاون Tay 2 نے ہٹلر جیسے جذبات ابھارے اور اقدار کے خلاف جنسیت پروان چڑھائ۔ ان دونوں کو بند کرنا پڑا۔ اگلے دس سالوں میں اقدار سے عاری وقت آ رہا ہے۔ اس تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ صدیوں والی تبدیلیاں دہائیوں میں آرہی ہیں۔ وقت دور نہیں جب مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ روبوٹ خود آگاہی رکھتے ہوں گے۔ انکے اندر جذبات بھی ہونگے اور اپنی الگ الگ اقدار ہونگی۔ انسان کے پاس وقت کم ہے کیونکہ اب یہ انقلاب آکر رہے گا۔
انسان سائینس و ایجادات کی دنیا میں ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ تیسرا صنعتی انقلاب سر پر ہے جس میں ہر چیز پرنٹ ہوگی۔ بیماروں پر کنٹرول ہوگا۔ سٹیم سیل اور نینو ٹیکنالوجی دنیا کو بدل کر رکھ دیں گے۔ انرجی کے ذرائع یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔
ایسے میں عالمِ اسلام بھی ویسٹ سے متاثر ہوکر ایک نئ انگڑائی لے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ انسانیت کی ترقی کا بلکل نیا حدودقیود سے آزاد دور شروع ہے۔
اللہ کریم نے قرآن میں مسلمان کا بنیادی فریضہ اس آئت میں بیان فرمایا ہے جو کہ اب ہم چھوڑ چکے ہیں :
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-(آل عمران 110)
۔ (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو
گمان ہے کہ اس نئے دور کے اشارے قرآن و حدیث میں بھی دئے گئے ہیں۔ قرآن کے مطابق ایک دن (دور کیونکہ عربی میں یوم کا مطلب دور بھی ہے) ہزار سال کا ہے جیسے:-
يُدَبِّرُ ٱلۡأَمۡرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ إِلَيۡهِ فِي يَوۡمٖ كَانَ مِقۡدَارُهُۥٓ أَلۡفَ سَنَةٖ مِّمَّا تَعُدُّونَ( السجدہ 5)
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر اس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہوگی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔
اللہ کا امر اس ایک دن ( دور) پہ محیط ہے جس کے بعد نیا دور شروع ہوتا ہے۔
امتِ مسلمہ پہ ہزار سال گزرنے کے بعد ابتلا کا دور آیا جب عثمانیوں کے ساتھ روس کی جنگوں کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد مسلمانوں پہ زوال آتا گیا یہاں تک کہ ایک ایک علاقہ یورپ کی کالونی بنتا چلا گیا۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّـٰهُ وَعْدَهٝ ۚ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج 47)
اور تجھ سے عذاب جلدی مانگتے ہیں اور اللہ اپنے وعدہ کا ہرگز خلاف نہیں کرے گا، اور ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار برس کے برابر ہوتا ہے جو تم گنتے ہو۔
هَآ اَنْتُـمْ هٰٓؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّهِۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ ۖ وَمَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ ۚ وَاللّـٰهُ الْغَنِىُّ وَاَنْتُـمُ الْفُقَرَآءُ ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْـرَكُمْۙ ثُـمَّ لَا يَكُـوْنُـوٓا اَمْثَالَكُمْ (محمد 38)
خبردار تم وہ لوگ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو بلائے جاتے ہو، تو کوئی تم میں سے وہ ہے جو بخل کرتا ہے، اور جو بخل کرتا ہے سو وہ اپنی ہی ذات سے بخل کرتا ہے، اور اللہ بے پروا ہے اور تم ہی محتاج ہو، اور اگر تم نہ مانو گے تو وہ اور قوم سوائے تمہارے بدل دے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہ ہوں گے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِى اللّـٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّـهُـمْ وَيُحِبُّوْنَهٝ ۙ اَذِلَّـةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِـرِيْنَۖ يُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِـمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ (مائدہ 54)
اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائے گا کہ جن کو اللہ چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں، مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست، اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔
درج بالا آئت موجودہ مسلمانوں میں انحطاط اور اسلام کا یورپ و امریکہ میں پھیلنے کا ایک اشارہ بھی ہوسکتی ہے۔
تاہم اس وقت اسلام کو پندرہ سو سال ہونے والے ہیں۔ قرآن کے مطابق اللہ کے امر کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے۔ اس حوالے سے یہ حدیث بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ قرآن اور اس حدیث کی تطبیق ہمیں یہ اشارہ دیتی ہے کہ امت کے پاس کل پندرہ سو سال ہیں۔ باقی مسلمان ملکوں کا حال سب کے سامنے ہے
Mishkat ul Masabeeh – 5514
إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا تَعْجِزَ أُمَّتِي عِنْدَ رَبِّهَا أَنْ يُؤَخِّرَهُمْ نِصْفَ يَوْمٍ»
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں امید کرتا ہوں کہ میری امت اپنے رب کے ہاں عاجز نہیں آئے گی کہ وہ انہیں آدھا دن مؤخر کر دے ۔‘‘ سعد ؓ سے دریافت کیا گیا ، آدھے دن کی کیا مقدار ہے ؟ انہوں نے فرمایا : پانچ سو سال ۔ ، رواہ ابوداؤد ۔