
تحریر۔۔۔ ضمیراحمدناز
1947 کا سال، برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا موڑ تھا جہاں مذہب کی بنیاد پر ایک نئی سرحد کھینچی گئی۔ پنجاب اور بنگال کے ٹکڑے کر دیے گئے، اور دیگر ریاستوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دے دیا گیا۔ لیکن جغرافیائی حقیقتیں ایسی تھیں کہ ان ریاستوں کا انجام پہلے سے طے شدہ معلوم ہوتا تھا۔ ان میں ریاست جموں و کشمیر، جو معاہدہ امرتسر کے تحت وجود میں آئی تھی، نہ صرف مذہبی اور جغرافیائی کشمکش کا شکار ہوئی بلکہ طاقت کے مظاہرے کا میدان بھی بنی۔
اس تقسیم کو برقرار رکھنے کے لیے یہ لازم تھا کہ برصغیر میں ایک سلگتی چنگاری باقی رکھی جائے، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس سے ایک نئی آگ بھڑکائی جا سکے۔ یوں ریاست جموں کشمیر کو اس مقصد کے لیے چنا گیا۔ اسلام اور پاکستان کے حامیوں نے 1947 میں بھرپور جدوجہد کی اور طاقت کے بل بوتے پر ایک بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، مگر یہ کامیابی ادھوری رہی۔ کشمیر کا بڑا حصہ ایک غیر فطری لکیر سے کاٹ دیا گیا۔ گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام آیا، جبکہ وادی کشمیر اور جموں بھارت کے قبضے میں چلے گئے۔
یہ لکیر نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو تقسیم کرتی ہے، بلکہ دلوں کو، شناختوں کو، اور خوابوں کو بھی دو حصوں میں بانٹتی ہے۔ کشمیری عوام، جو اپنی وطن پرستی اور ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہیں، اس جبری تقسیم کو کبھی قبول نہ کر سکے۔ وادی کشمیر اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ ہمیشہ اس لکیر کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ لکیر صرف جغرافیہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ ان کی شناخت اور وجود کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔
گزرے سستر سالوں میں کشمیری قوم نے ثابت کیا ہے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی، سماجی، اور عسکری ہر محاذ پر انہوں نے اپنی آزادی اور شناخت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ کشمیری عوام نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی طاقت کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے جو انہیں "اٹوٹ انگ” کہے یا ان کی آزادی کو دبانے کی کوشش کرے۔
یہ بات وہ قوتیں بھی جان گئیں جنہوں نے اس تقسیم کی بنیاد رکھی تھی۔ لیکن اس سلگتے مسئلے کے حل کے لیے ایک غیر معمولی سوچ، ایک "آؤٹ آف باکس” منصوبہ سامنے آیا ہے۔
ایک عملی اور پائیدار حل
اگر مسئلہ کشمیر کو پرامن اور دیرپا طریقے سے حل کرنا ہے تو کشمیری عوام کو معاہدہ امرتسر والی پوری ریاست کے بجائے "صوبہ کشمیر” پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ تجویز یہ ہے کہ:
گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جائے۔
یہ خطہ جغرافیائی، تاریخی، اور ثقافتی طور پر پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ ہےلیہہ لداخ کو بھارت کے زیر قبضہ رہنے دیا جائے۔وہاں کی عوام موجودہ تعلقات سے بڑی حد تک مطمئن ہیں۔
وادی کشمیر، آزاد کشمیر، اور ملحقہ پہاڑی علاقوں کو ایک غیرجانبدار ریاست (بفر زون) کے طور پر اقوام متحدہ یا کسی علاقائی تنظیم کی نگرانی میں رکھا جائے۔
دونوں طرف کی عوام کو آزادانہ میل جول اور تجارت کی اجازت دی جائے۔
اس سے نہ صرف کشمیری عوام کے درمیان تعلقات بحال ہوں گے بلکہ خطے میں امن اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا۔
یہ تجویز کشمیری عوام کو اپنی پہچان، ثقافت، اور ورثے کو بچانے کا موقع فراہم کرے گی۔ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا خاتمہ ہوگا، اور ایک پرامن ماحول پیدا ہوگا جہاں کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں گے۔
فی الوقت حالات یہ ہیں کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کشمیری عوام اپنی شناخت اور آزادی کے خواب کو پورا ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو نہ صرف ایک دیرینہ تنازعہ حل ہوگا بلکہ کشمیری عوام کو بارڈر کی مستقل اذیت اور عدم تحفظ کے احساس سے بھی نجات ملے گی۔
کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اپنی نسلوں کو ایک ایسے کاروبار میں جھونکتے رہیں جس کا مقصد ان کے نام پر پیسہ بٹورنا ہو، یا وہ ایک پائیدار اور عملی حل کی طرف قدم بڑھائیں، جہاں ان کے مستقبل کا فیصلہ امن، انصاف، اور خوشحالی کے اصولوں پر ہو۔۔۔