
مقصود منتظر
آزادکشمیر میں گزشتہ تین چار ہفتوں سے ایک ہنگامہ برپا ہے ۔ ہر شہر اور ہر کوچے میں مظاہرے ہیں ، ہر ضلع میں لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ اس سب کی وجہ وہ صدارتی آرڈیننس ہے جو یکم نومبر کو جاری کیا گیا ۔ یہ آرڈیننس احتجاج اور مظاہروں سے متعلق ہے جس کے تحت ریاست کے کسی بھی علاقے میں احتجاج سے پہلے ضلعی انتظامیہ سے اجازت لازم قرار دیا گیا ۔ احتجاج یا عوامی اجتماع میں کتنے افراد شریک ہوں گے ، جگہ یا حدود کون سی جگہ ہوگی ۔ یہ بھی پیشگی بتانا ضروری ہے ۔۔ اس متنازع آرڈیننس کو حکومت آزادکشمیر میں انتہائی عجلت میں منظور کیا جس کے بعد عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہو ا۔ یہ آرڈیننس عین اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کے جیسا ہے۔۔۔
آزاد کشمیر ایک حساس خطہ ہے۔ یہ بات آزادکشمیر کے حکمرانوں کے علاوہ پاکستان کے صاحب اقتدار بھی اچھی طرح جانتے ہیں پھر بھلا ایسی کیا مجبوری پیش آئی کہ راتوں رات تند و تیزی سے ایک ایسا متنازع آرڈیننس لایا گیا جس کی وجہ سے اندر ہی اندر پلنے والے آتش فشاں کو ایک بار پھر جگا دیا گیا ۔۔ آزاد کشمیر کی حیثیت اسلام آباد سے بالکل مختلف ہے ۔ یہاں کسی بھی قانون سازی سے پہلے اس سے اٹھنے والے طوفان کے بارے میں سوچنا لازم ہوتا ہے ۔ کیونکہ گزشتہ سال چلنے والی عوامی تحریک ابھی زیادہ پرانی نہیں ہے ۔ اگر اسی تحریک کے پیش نظر یہ صدارتی آرڈیننس منظور کروایا گیا تو یہ بالکل بھی سنجیدہ اقدام نہیں ہے کیونکہ عوام کے سامنے قانون بالکل بے بس ہوجاتا ہے جسیا کہ پچھلے سال اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی تھی ۔۔
صدارتی آرڈیننس جس کسی کے مشورہ پر منظور کروایا گیا وہ شاید آتش چنار سے ناواقف ہے ۔ آزادکشمیر کے عوام اب برادری ازم ، قومیت اور مختلف نظریات کے الگ الگ خولوں سے نکل چکے ہیں ۔ یہ باشعور لوگ ہیں اور یہ مقبوضہ کشمیر کی تعمیر و ترقی اور وہاں آزاد کی مسلح تحریک کے باوجود عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی اور سہولیات سے موازنہ کرتے ہیں ۔ اگرچہ اس کا کوئی موازنہ نہیں بنتا ہے ۔ وادی کشمیر میں 35 سال سے جاری تحریک کے باوجود تعمیر و ترقی کا سفر نہیں رکا ۔ جبکہ ادھر آزاد کشمیر میں بھی پچھلے 20 سال میں یہاں کے انفرسٹیچر میں کافی بہتری آئی ہے تاہم یہاں کے لوگوں میں محروم کا ایک احساس پایا جارہا ہے جو وقتا فوقتا ہمیں احتجاج اور مظاہروں کی شکل میں نظر آتا ہے ۔
سنہ انیس سو سینتالیس سے لیکر دو ہزار تئیس تک آزادکشمیر میں امن و امان کی صورتحال مثالی رہی ۔ خطے میں کرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے لیکن گزشتہ سال اچانک شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے نہ صرف اسلام آباد کو چونکا دیا بلکہ خود یہاں کے حکمرانوں و سیاستدانوں کے پاوں تلے سے بھی زمین سرک گئی ۔ کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ آزاد کشمیر کے لوگ برادری ازم سے نکل کر ایک عام شہری شوکت نواز میر کی چھتری تلے اکٹھا ہوکر اپنے حقوق کیلئے باہر نکل آئیں گے ۔ اس تحریک کا پیغام مقبوضہ کشمیر بھی گیا ہے جو شاید اتنا موثر نہیں ہے لیکن احتجاج اور مظاہروں پر قد غن لگانے کیلئے جو صدارتی آرڈیننس عوام کے سروں پر تھوپا گیا یقینا اس کا منفی پیغام مقبوضہ کشمیر جائے گا ۔ وہاں کے بھارت نواز سیاست اور خود بھارتی حکمران کل یہ کہنے کے پرہیز نہیں کریں گے کہ ، دیکھو ، اُس پار کشمیر یعنی آزادکشمیر میں کیا ہورہا ہے ۔ وہاں لوگوں سے اظہار رائے کا حق چھینا جارہا ہے ، وہاں مظاہروں اور دیگر اجتماعات بھی سرکار کی اجازت کے محتاج ہیں ۔ یعنی ان قدغنوں کا براہ راست فائد مودی سرکار کو ہوگا اور وہ نہتے کشمیریوں پر مزید زمین تنگ کرے گی ۔
کاش کہ آزاد کشمیر کی لولی لنگڑی حکومت نے ایسا اقدام کرنے سے پہلے اگر بار سوچا ہوتا ۔ ویسے سوچ کر بھی موجود حکومت نے کون سا تیر مارنا تھا کیونکہ ادھر اُدھر سے سروں کو اکٹھا کرکے ایک بندے کو تخت پر بٹھا کر اگر حکومت کہلاتی ہے تو پھر الیکشن شلیکشن کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ الیکشن میں عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن بعد میں عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈال کر چند منظور نظر افراد کو اکٹھا کرکے نظام چلانے کیلئے ایک ایسا ڈھانچہ بنایا گیا جس کا نام حکومت رکھا گیا ۔۔ اس نام نہاد حکومت کا عوام کے دکھ درد سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہے ۔
اب جو بھی ہے اسے نا تسلیم کرنے کے باوجود کچھ بدلنا نہیں لہذا جیسی تیسی کی حکومت کو ریاست میں شعلے بھڑکنے سے پہلے ایسے اقدامات کرنا چاہیے جن سے ریاست میں امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں رہے وگر نہ اس کا فائدہ بھارت آٹھائے گا ۔ دوسری جانب اسلام آباد کو بھی اپنی خاموش لبوں کو حرکت دینے کی ضرورت ہے ۔ آزاد کشمیر کے عوام کے تیسرے درجے کے لوگ سمجھنے کے بجائے انہیں گلے سے لگانا ہے ۔ ان کی شکایات اور تحفظات کو دور کرنا ہے دانش مندی ہے نہ کہ کوئی کالا قانون ۔۔۔