
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کی ،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کونسے مقدمات فوجی عدالتوں کومنتقل ہوئےاورکیوں ہوئے ؟ اپنے دلائل منگل تک کرلیں۔۔۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آرمی ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پرہوگا، خارجہ حارث بولے سویلنز کا ٹرایل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سیکشن 31D توفوجیوں کوفرائض کی انجام دیہی سے روکنے پراکسانے سے متعلق ہے، فوجی عدالتوں میں کون سا کیس جائے گا یہ دیکھنا ہے جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا پروکیل نےبتایاکہ آئین کومعطل کرنے کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 میں ہے جو ہرقانون پرفوقیت رکھتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی،کیا غیرآئینی اقدام پرججزبھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟جسٹس محمد علی مظہربولے پرویز مشرف کیس میں ججزکے نام دیئے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججزکے نام نکال دیئے گئے، جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ، کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کاجائزہ لےسکتے ہیں؟کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پرعملدرآمدہوا یا نہیں؟جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگرضرورت ہوئی توعدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہیں جس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے،جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے بنچ سربراہ سے معذرت کیساتھ ملٹری کورٹس فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے،ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا توسب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پرہی اپیل ہوتی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے بتایاکہ موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے اور فیصلے سنانے کی مشروط اجازت بھی سپریم کورٹ نے ہی دی، دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کواپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ پیش کردہ شواہد کا معیاربھی دیکھنا چاہتے ہیں، خواجہ حارث نے کہاکہ تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں تاہم عدالت شواہد کا میرٹ پرجائزہ نہیں لے سکتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ ہم کسی سے ذکرنہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات میں اگست 2023 کو ترمیم کی گئی، کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو9 مئی واقعات پرلاگو کیا جاسکتا ہے؟ عدالت نے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی