
تحریر ۔۔۔۔۔ وقار حیدر

چین ویسا بالکل بھی نہیں ہے ، جیسا بتایا جاتاہے
پچھلے پندرہ روز سے چین میں پڑاؤ ہے ،سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ چینی افراد کی شکلیں بالکل بھی ایک جیسی نہیں ہیں ، سب کے خال و خد، نین و نقش ، حدو قد اور جمالیاتی حسن ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور ممتاز ہیں ، صرف اتنا ہی نہیں ، معاشرتی لحاظ سے نہ تو تقسیم ہے اور نہ ہی درجہ بندی ہے بلکہ یہاں کے افراد اپنے اپنے شعبہ جات اور اپنی تکنیکی مہارت سے ایک دوسرے علیحدہ تشخص رکھتے ہیں ۔ وہ بھی صرف اور صرف کام والی جگہوں پر، اور یہ سب اپنے کام میں مشغول نظر آئیں گے ، کوئی کسی کو لیکر کسی کمتری کا شکار نظر نہیں آتا ہے، اور نہ ہی یہاں کچھ دوسرے معاشروں کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے والے افراد موجود ہیں ، چونکہ سب اپنے کاموں میں مصروف ہیں اسی بنا پر ایسی سوچ ہی پروان نہیں چڑھتی جس سے کوئی کسی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو، اور اہم بات یہ ہے کہ ایسی سوچ کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا جاتا ۔ اگر کوئی ایسی سوچ کا حامل فرد اپنے احساس کمتری کو کسی بھی حرکت کے ذریعے ظاہر کرتا ہے تو سسٹم ہی اسکو قبول نہیں کرتا
کیوں نہ پہلے یہ جان لیں کہ یہ سسٹم یعنی نظام ہے کیا ؟
انسانیت کی بنیادوں پر بنائے جانے والے نظام کی بنیاد سال 1935 میں رکھی گئی تھی ، جب چینی کمیونسٹوں کے بڑوں نے ملک بیٹھ کر یہ ٹھانی تھی کہ برطانوی سامراجی نظام کے خاتمہ کیلئے حقیقی جدوجہد شروع کی جائے گی اور آمریت کے بجائے انسانیت کو ترویج دی جائے گی ۔ یہ سرخ انقلاب کی شروعات تھی ، اور تب سے اب تک اور آئندہ بھی یہ سرخ رنگ تحریک کی علامت کے طور پر جانا پہنچانا جاتا ہے ، بدقسمتی سے وطن عزیز میں انقلابی سوچ اور سرخوں کیلئے کوئی ہریالی نہیں ہے ، اور اب طنزیہ طور پر کسی بھی انقلابی کو سُرخہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔
لیکن یادرہے کہ اس سُرخ انقلاب نے چینیوں کو مادی وسائل میں ایسا دوام بخشا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ترقی ایسی کہ مغرب بھی اسکا معترف نظر آتا ہے اور مشرقی وسطی کے امیر ممالک اپنی تمام تر دولت کو چین کے حوالے کر کے ان سے ٹیکنالوجی لینا چاہتا ہے ۔ یہاں کے افراد اگر کسی کمپنی کی مصنوعات کے گروید ہو جائیں تو دنیا بھر میں اسکی مارکیٹ بنا دیتے ہیں ۔ رہی بات جدت کی تو یہ حقیقت میں دنیائے جدت ہے جہاں روز مرہ زندگی کے امور صرف اور صرف موبائل سے سر انجام پاتے ہیں۔ ہر ادارہ اور ہر فردموبائل سے جڑا ہے ۔اس قدر ترقی تو مغرب میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
انسانی رویوں میں چینی افراد اعلی اقدار کے حامل ہیں ، کسی بھی فرد کو اس کے کام ،مثبت سوچ اور کردار کے ذریعے دیکھا جاتا ہے ۔ اچھے اخلاق ، اچھے کام اور مخلص شخص کو رنگ و نسل ،قومیت و مذہب سے ماورا ہو کر پورے نمبر دیئے جاتے ہیں ۔ جو کام جس کے سپرد کر دیں اسی سے حساب مانگا جاتا ہے ۔ ہمار ے کولیگ اعتصام الحق کہتے ہیں یہاں کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس کو پہلے تو کام آتا ہو ، پھر وہ کام کرنا چاہتا ہو اور اگر کام میں کہیں کمی بیشی ہو جائے تو اس کمی یا غلطی کو قبول کر کے اس کا ازالہ کرناجانتا ہوں ، لیکن غلطی کو نہ ماننا یہاں بڑی غلطی بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے۔۔ اور آپ صاحبان عقل و دانش تو جانتے ہی ہیں کہ گناہ گار انسان عظیم معاشروں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے ۔
یہاں کے افراد منظم ہو چکے ہیں ۔ شاید میرے دیس واسیوں کو سن کر عجیب لگے لیکن یہاں سڑک کنارے پیدل چلنے والوں کیلئے اشارے لگے ہیں ، ہر شاہراہ پر یہی صورتحال ہے ، صفائی کا خاص انتظام کیا جاتا ہے ، شاہراہوں کو تقریبا روزانہ کی بنیادوں پر دھویا جاتا ہے ۔ 2023 تک بیجنگ کی رجسٹرڈ آبادی ایک کروڑ 43 لاکھ تھی جب کہ اگر یہاں روزگار اور تعلیم کی غرض سے رہنے والوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد دوگنی ہو جاتی ہے لیکن آپکو ٹریفک جام اور رش کم ہی نظر آئے گا۔ یہ ایک تعارفی عبارت ہے جس میں صرف ابھی تک کا آنکھوں دیکھا حال ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔ دیکھنے، سمجھنے ، لکھنے اور پڑھنے کو بہت کچھ ہے جس کا سلسلہ طویل ہو سکتا ہے لیکن ہم اپنے قارئین کو پاکستانی کی آنکھ سے چین دکھانا اور پڑھانا جاری رکھیں گے