
تحریر ۔۔۔۔ مقصود منتظر
"شام کی دہلیز پر” صبح کی امید۔۔ یہ جملہ کسی فلاسفر کا قول ہے نہ ہی کوئی محاورہ ۔۔ یہ سادہ جملہ کشمیر کے شاعر، صحافی اور قلم کار اللہ داد صدیقی کے پانچویں مجموعہ ۔۔شام کی دہلیزپر ۔۔ کی مختصر سمری ہے۔
جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب کے پنوں میں اداسی کے بادل ہیں ، غم کی دھند ہے اور تکالیف کے پہاڑ ہیں لیکن جوں جوں قاری پنے پلٹتا ہے تو اداسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں ، غم کی دھند تیزی سے زائل ہوتی ہے اور تکالیف کا کوہ ہمالیہ جیسے خواب نگر محسوس ہوتا ہے۔ رائٹر کا کمال کتنا باکمال ہے جہاں وہ غموں کے سمندر میں غوطے کھارہا ہے وہیں ہاتھ میں ہیرا تھامے باہر نکل آتا ہے ، جہاں اندھیروں کے گھٹاٹوپ میں گم ہوجاتا ہے وہیں کہیں امید کی جوت چمکتی نظر آرہی ہے ۔ وہ مصائب کے بوجھ تلے دب جاتا ہے لیکن وہیں کوئی خیال اسے نہ معلوم کون سی شکتی دےکر مکتی دلاتا ہے ۔۔۔ اسی لیے تو جہاں شام کی دہلیز پرسورج سوگوار ہے وہیں صبح کا نور خیالوں کو روشن کردیتا ہے ۔۔۔ شام کی دہلیز پر صبح کی امید محکم ہے ۔
اللہ داد صدیقی اپنے شعبہ میں خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تو ہیں ہی۔۔ لیکن ان کی تخلیق کا نیا انداز خوب تراور باکمال ہے۔ شام کی دہلیز پر انہوں نے لفظوں کو جس نئے پیرائے میں پروئیا ہے اس سے قاری نئی شمتا اور نئی توانائی سے مستفید ہوتا ہے ۔ سر ورق سے لیکر آخر تک کا سفر ۔۔۔انتہائی دلچسپ ہے ۔ اس میں آنسووں کے موتی بھی چھلکتے نظر آتے ہیں اور لبوں پر تازہ مسکراہٹیں بھی ۔ یہاں ازیت و تکلیف بھی ہے اور راحت کے جھونکے بھی ۔ امتحان و ازمائش بھی اور امید و آس بھی ۔۔۔
اللہ داد صدیقی ، جیسی ان کی نیچر ، دھیما مزاج ، آداب کے ادب ، اخلاص کا خلوص کا ہر کوئی معترف ہے اسی طرح ان کی نئی تخلیق بھی خلوص و آداب سے مزئین ہے ۔۔۔ البتہ اس میں ظالم کیلئے للکار بھی ہے اور قانون شکنوں کیلئے احتجاج بھی درج ہے ۔۔۔ داد صدیقی جہاں معروضی اور امیجنری دنیا میں غوطے لگاتے ہیں وہیں وہ بے شمار حقیقی واقعات کے شاہد بھی ہیں ۔۔ قانون کے محاذ پر جہاں کہیں بھی ناانصافی دیکھتےہیں ، ان کے قلم کی چیخ و پکاربے شرموں کو برہنہ کرتی ہے اور ان کا ضمیر ظالموں کو جھنجوڑتا ہے ۔۔۔ وہ فرعون کو تھوکتا ہے اور یزید کو دھتکارتا ہے ۔۔ان کے مجموعہ میں موسی فاتح ہے اور حسین دلوں کے بادشاہ ہیں ۔۔۔ اسی لیے تو جہاں شام غریباں ہے وہیں ۔۔۔ حق اپنی فتح ۔۔۔ کا اعلان بھی کرتا ہے ۔۔۔ کل ملا کر ان کی شام کی دہلیز پر امید کے دیئے جل رہے ہیں ۔ خوابوں کی تعبیر نظر آرہی ہے ۔۔۔