
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندو خیل کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت شوکاز نوٹس کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل درخواست گزار کی جانب سے اپیل واپس لینے کی استدعا کی گئی اور موقف اپنایا کہ اگر عدالت کی اجازت ہو تو اپیل واپس لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے آپ اپنا دعوی واپس لے سکتے ہیں، درخواست نہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے۔ نذر عباس کے وکیل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ دونوں کمیٹیوں کیخلاف توہین عدالت کا معاملے پر فل کورٹ کیلئے چیف جسٹس کو بھجوایا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا یہ کن دو کمیٹیوں کی بات ہو رہی ہے؟ وکیل نے بتایا کہ ایک ریگولر بینچز کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ہے، دوسری آئینی بینچز کی۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے اس میں تو چیف جسٹس بھی شامل ہیں، کیا ایک توہین عدالت کے ملزم کو فل کورٹ بنانے کیلئے معاملہ بھیجا گیا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا فل کورٹ میں توہین عدالت کے چار ملزمان بھی بیٹھیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا عدالت نے فیصلے کے ذریعے اپنا مائنڈ ظاہر کردیا تو اسی وقت توہین عدالت کی کارروائی شروع کیوں نہ کی؟ جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے ہاں بلا لیتے، ہم پیش ہو جاتے۔ اٹارنی جنرل کو بلائیں، کہاں ہیں وہ؟ عدالت نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا اٹارنی جنرل کسی میٹنگ میں گئے ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ کا اس سارے معاملے پر موقف کیا ہے؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ایک مسئلہ ہے کہ یہ فیصلہ ہمارے سامنے چیلنج نہیں ہے، ہم تب ہی اس فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں جب چیلنج ہوا ہو۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے اگر فیصلے پرسوموٹو لینا ہے تو اس کا اختیار آئینی بنچ کے پاس ہے۔ جسٹس مسعت ہلالی نے ریمارکس دیئے خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہین عدالت تو نہیں کر رہے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے، ایک بار اس سارے معاملے کو دیکھ لیتےہیں، روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے، یہ تماشا تو ختم ہو، دیکھ لیتے ہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی، دیکھ لیتے ہیں کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بنچ کے سامنے چیلنج ہوئے تھے؟ مرکزی کیس آئینی بینچ کے سامنے سماعت کیلئے کل مقرر ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے توہینِ عدالت قانون میں پورا طریقہ کاربیان کیاگیاہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کیلئے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے، کیا ججز کیلئے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں؟ جب فُل کورٹ بنے گاتو کیا مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہوں گے؟ ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہو جاتے۔ جسٹس شاہد وحید نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا انٹرا کورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہی نہیں کیا اسے دیکھ سکتے ہیں؟ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں؟ یہ معاملہ ہم اسی کیس کے تسلسل میں دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ہدایت کی کہ مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے ہم آئین کو فالو کریں گے آرڈر کو نہیں، یہاں سوال اختیارات سے تجاوز کا ہے کیا کمیٹی نے اپنا اختیارات سے تجاوز کیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آج وکلاء آپ کے سامنے کہہ رہے تھے کہ بینچز اختیارات کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے، آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوتے ہی ملٹری ٹرائل والا کیس آئینی بینچ میں آ گیا وہ کس نے لگایا؟ 13 جنوری کو پہلا آرڈر ہوا اس میں پہلا سوال ہی اسی اعتراض کا ہے۔ وکیل نے موقف اپنایا انٹرا کورٹ اپیل اس درخواست کیخلاف تھی وہ ختم ہو گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے جو بھی ہوا ہماری بدقسمتی ہے، اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بنچ سے الگ ہو جاوں گا، ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہمارےسامنے جو اپیل تھی وہ غیر موثر ہو چکی، اگر بنچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں معذرت کروں گا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہا گیا ہے ہمارا مفادات کا معاملہ ہے اس لئے ہم نہ بیٹھیں، آج یہ مفادات والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں، آئینی بنچ میں شامل کر کے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ یہ ہونسا مفاد ہے جس کی بات کی جا رہی ہے؟ کیا کوئی پلاٹ شلاٹ دیئے ہیں؟ ہم دو دو بینچ روزانہ چلا رہے ہیں یہ مفادات ہیں؟ اگر آئینی بنچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر جو نہیں شامل وہ متاثرین میں آئیں گے، مفادات والے اور متاثرین دونوں یہ کیس پھر نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، یا پھر عالمی عدالت انصاف کو کیس بھیجنا پڑے گا، کوئی ایک وکیل مجھے بتا دے ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا مفاد مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بنچ میں بیٹھے ہیں؟ ہمیں بتایا جائے کیا مفادات حاصل کیے ہیں؟ آخر پتہ تو چلے مفادات کیا ہیں، ایسا نہ ہو کوئی اور میرے نام پر مفاد لے رہا ہو۔ ھسٹس جمال مندو خیل نے مزید کہا کہ جس انداز میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیاگیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاوں گا، توہین عدالت کے نوٹس کا سلسلہ رکے اس لئے چاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں، آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا، بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، چھ ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا موجودہ بینچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل شاہد جمیل سے استفسار کیا کیا آپ نے دو رکنی بنچ میں فل کورٹ کی استدعا کی تھی؟ وکیل شاہد جمیل نے کہا اس بنچ میں بھی استدعا کر رہا ہوں کہ فل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہو جائے گی، اب کل کیس آئینی بینچ کے سامنے مقرر ہے، آئینی بینچ کا کیس کوئی لے گا تو آئینی بینچ توہین عدالت کانوٹس جاری کردے گا، پھر کیا ہوگا؟ عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی اور ریمارکس دیئے بینچ کی اکثریت انٹراکورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی۔ جسٹس اطہر من اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔