
اسلام آباد ۔۔۔ ،مقصود منتظر
جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام اور حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی پاکستان کی زیر صدارت ہونے والی قومی کشمیر کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں پاکستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاسی ، سماجی و مذہبی رہنماؤں اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے نمائندوں کے علاوہ ماہرین،اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
شرکاء نے ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر غور کیا اور متفقہ طور پر درج ذیل اعلامیہ کی منظوری دی۔
جموں و کشمیر کا تنازعہ نہ زمینی تنازعہ ہے اور نہ دو ملکوں کا تنازعہ ہے۔جموں و کشمیر کی آزادی، اس کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کا حصول اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا فوری خاتمہ ہمارے موقف اور بیانیہ کے نکات ہیں۔
جموں و کشمیر کے لوگوں سے حق خودارادیت کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی انہیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے ذریعہ ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں کو نافذ کرنے میں ناکامی نے، بھارت کی ہٹ دھرمی کے ساتھ، جنوبی ایشیا کے عدم استحکام میں براہ راست کردار ادا کیا ہے، جس سے بار بار فوجی تنازعات جنم لیتے رہے ہیں۔
اس دوران میں لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں۔ شہری زندگی کے بنیادی ڈھانچے اور انسانی جانوں کے حوالہ سے ہونے والا یہ نقصان ناقابلِ حساب ہے۔ ان حالات میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ بھی فلسطین کی طرح بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں غیر ملکی قبضہ اور جبر کے خلاف مزاحمت کا پورا حق حاصل ہے۔
کانفرنس غیر قانونی بھارتی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے، جن میں اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے اور لاکھوں سابق فوجیوں اور آر ایس ایس کے وابستگان کو آباد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے قوانین میں ترمیم کرکے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ ڈومیسائل قوانین میں تبدیلیوں کے ذریعے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کےان اقدامات کو ہم بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ کانفرنس سیاسی و سماجی قیادت کو قید میں ڈالنے، صحافیوں، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی پر پابندیوں، سرچ آپریشن کے نام پر نوجوانوں کی گرفتاریوں، حراستی قتل، جائیدادوں کی ضبطی اور جبر کے دیگر طریقوں کی مذمت کرتی ہے اور ان کو ریاستی دہشت گردی کی سنگین کارروائیوں سے تعبیر کرتی ہے۔
کانفرنس بھارتی استعمار کے تمام وحشیانہ ہتھکنڈوں کے باوجود جموں و کشمیرکے عوام کی مسلسل جدوجہد، قربانیوں اور ثابت قدمی اور تحریک آزادی کے لیے ان کے غیر متزلزل عزم کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور انہیں قوم کے لیے روشنی کا مینار قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
یہ اجلاس اہل جموں و کشمیر کو یقین دلاتا ہے کہ ان کی آزادی و حریت کی عظیم و ایمان افروزجدوجہد میں پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ ہے اور بھارت کے غاصبانہ تسلط کے اخلاف ان کی تاریخ سازجدوجہدکو ان کا بنیادی حق اور خطہ کے لیے امن و سلامتی کا ضامن سمجھتی ہے۔ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی آزادی کے حصول تک اس عظیم جدوجہد میں ہر ہر محاذ پر ہم ان کے ساتھ ہیں ۔
ایک مستحکم اور کشیدگی سے پاک جنوبی ایشیا کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ:
بھارت سےجموں و کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ ختم کر انے اور بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشنز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے ہر ممکن ذرایع ے دباو ڈالا جانا چاہیے۔
جموں و کشمیر کے مقبوضہ عوام کو خود ارادیت کا وعدہ شدہ حق فوری طور پر دیا جانا چاہیے اور اس سلسلہ کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔
جموں و کشمیر کے متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے ذریعے انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔
جاری آبادکاری نوآبادیاتی منصوبے اور آبادیاتی تبدیلیوں کی کو ششوں کو روکنے اور اس پراسسس کو الٹنے کا انتظام کیا جانا چاہیے۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی بشمول خواتین، بچوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو قابض طاقت کی من مانی مرضی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسلی صفائی، اور نسل کشی کا جائزہ لینے کے لیے آزاد انسانی امدادی تنظیموں، اقوام متحدہ کے مبصرین، اور OIC کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کو بلا روک ٹوک رسائی دی جانی چاہیے۔
اجلاس محسوس کرتا ہے کہ حکومت پاکستان کو ایک فعال(Proactive) ہمہ گیر، جامع اور مربوط قومی پالیسی اور واضح بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تنازعہ کشمیر کے ایک فریق اور وکیل کی حیثیت سے پاکستان کو ایک بھر پور جارحانہ بین الاقوامی سفارتی مہم کا اہتمام کرنا چاہیے۔اعلیٰ ترین حکومتی سطح کے دوروں کے ساتھ ساتھ تنازعہ کشمیر کا ادراک رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ،ماہر سفارت کاروں اور اہل دانش کے وفود دنیابھرمیں بھیجنے کااہتمام کیا جائے،جن میں حریت کانفرنس،آزادجموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ممبران پارلیمنٹ بھی شامل کیے جائیں۔نیزدوسری جانب ایک ہمہ وقتی خصوصی نمائندہ کے تقرر کے ساتھ ساتھ تمام سفارت خانوں میں خصوصی ڈیسک قائم کیے جائیں،جہاں سفارت کاروں کے علاوہ متحرک تارکین وطن کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔
کانفرنس حکومت پاکستان پر زور دیتی ہے کہ وہ آ گے بڑھ کر موثر اور جامع اقدامات کرے کہ :
قیدی حریت رہنما شبیر احمد شاہ ،محمد یاسین ملک ،عبدالحمید فیاض ،مسرت عالم، ڈاکٹر قاسم فکتو اور آسیہ اندرابی اور ان کی خواتین ساتھیوں اور آزادی کی جدوجہد کے ہزاروں دیگر کارکنان جو جھوٹے الزامات کے تحت موت کی کوٹھڑیوں اور قید تنہائی میں انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کی رہائی، انہیں ضروری طبی دیکھ بھال اور ان کے اہل خانہ اور وکلاء تک مناسب رسائی فراہم کا انتظام ممکن ہو۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان اور اس سے باہر (مثلاً برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ) میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا جا سکے، عالمی برادری پر زور دیا جائے کہ وہ ایسے مذموم، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے اقدامات کا نوٹس لے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک غیر مستقل رکن کے طور پر، حکومت پاکستان کو مناسب ہوم ورک کرتے ہو ے تنازعہ کشمیر کو عالمی ادارہ میں مسلسل اٹھانا چائیے –اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل پر جموں و کشمیر کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کرنے کے لیے زور ڈالنا چاہیے،جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرے ، صورتحال کا جائزہ لے، اور بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی اداروں کی مقبوضہ جموں و کشمیر تک رسائی کو ممکن بنائے اور بالآخر رائے شماری کے انعقاد کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرے تاکہ کشمیریوں کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔
اجلاس کی رائے میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے توڑ کے لیے سب سے موثر ہتھیار آزاد جموں و کشمیر میں آئینی اور وسائل کے لحاظ سے با اختیار اور باوسائل حکومت ہے جو بین الاقوامی سطح پر حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر کشمیریوں کی ترجمانی کا حق ادا کرسکتی ہے، اس تناظرمیں اجلاس حکومت پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے آزاد خطوں،آزاد جموں و کشمیر،گلگت بلتستان کو اختیارات اور وسائل کے لحاظ سے مزید باوقار بنانے کا اہتمام کرے اور تحریک کے اس نازک دوراہے پر کوئی ایسی بے تدبیری نہ کرے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور اہل کشمیر کے قومی موقف کو زک پہنچنے یا بھارت کو اپنے مذموم اقدامات کا جواز فراہم ہو۔
5. حکومت پاکستان کوجموں و کشمیر کے امور کے لیے ایک فوکل پرسن یا ایمبیسیڈر ایٹ لارج کا تقرر کرنا چاہیے۔ دوسری جانب تحریک کے ایک حقیقی بیس کیمپ قائم کرنے کے لیے، آزاد جموں و کشمیر (AJK) اور گلگت بلتستان (GB) کو انتظامی اور اقتصادی طور پر بااختیار بنایا جائے۔ اجلاس ذرائع ابلاغ سے بھی توقع رکھتا ہے کہ بھارتی مظالم اور عزائم کو اجاگر کرنے میں اپناکردارادا کریں گے۔
یہ اجلاس اہل جموں وکشمیر کو یقین دلاتا ہے کہ ان کی آزادی و حریت کی عظیم و ایمان افروزجدوجہد میں پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ ہے اور بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف ان کی تاریخ سازجدوجہدکو ان کا بنیادی حق اور خطہ کے لیے امن و سلامتی کا ضامن سمجھتی ہے۔ہم یہ عزم کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام اور ریاست پاکستان اس قومی وملی ذمہ داری کی ادائیگی میں اپنے فریضہ سے روگردانی نہیں کریں گے اورجموں و کشمیر کی آزادی کی اس عظیم جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
کانفرنس فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے، ان کی تاریخی قربانیوں کو سراہتی ہے، اور آزاد ریاست فلسطین کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ہم فلسطین کے عوام کو اسرائیلی دہشت گردی اور نسل کشی کے خلاف ان کی جرات مندانہ جدوجہد اور قربانیوں پر سلام پیش کرتے ہیں ۔ ان کی جدوجہد اور قربانی مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔