
ارسلان سدوزئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان کی رحلت ایک ایسے عہدکے اختتام کا اعلان ہے، جو خدمت، علم، اور انسان دوستی کی درخشاں مثال تھا۔ وہ چراغ جو روشنی بانٹتے بانٹتے خود امر ہو گیا، وہ دریا جو اپنی موجوں میں پیاسوں کی سیرابی کا سامان کرتا رہا، وہ مسافر جو ہر سنگِ راہ کو چوم کر آگے بڑھتا رہا، اور آخر کار، اپنی منزلِ فنا کے راستے پہ گامزن ہمیشہ کے لیے انسانوں کے دلوں میں زندہ ہو گیا۔
وہ ضرور اسماعیلی مسلک کیلئے امام تھے، لیکن عالم انسانیت کیلئے ایک فکر، ایک تحریک، ایک ایسی روشنی جو دلوں اور ذہنوں کو منور کرتی رہی۔ ان کی زندگی، فلاح و بہبود کی وہ کہانی تھی جس کا ہر ورق خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور تھا۔ انہوں نے انسانیت کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھا، جہالت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے علم کے چراغ جلائے، اور غربت و بے بسی کے خلاف امید و ہمت کے قلعے تعمیر کیے۔ ان کا وژن کسی ایک قوم، کسی ایک سرحد، یا کسی ایک زمانے تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ ان خوابوں کے معمار تھے جو صدیوں تک زندہ رہتے ہیں، اور ان حقیقتوں کے خالق جو وقت کے ماتھے پر چمکتی ہیں۔
جب انہوں نے تعلیمی ادارے قائم کیے، تو وہ صرف عمارتیں نہ تھیں، بلکہ فکر و شعور کے وہ در وا کیے جن سے نئی نسلیں جہالت کے اندھیروں کو چیرتی ہوئی روشنی کے جہانوں تک جا سکیں۔ آغا خان یونیورسٹی ہو، ایجوکیشن سروسز، یا دنیا بھر میں پھیلے علمی مراکز، ہر جگہ ان کا نام علم و حکمت کے نگینے کی طرح چمکتا رہے گا۔
صحت کے میدان میں ان کی خدمات ایک مسیحا کی کہانی سناتی ہیں، جو زخموں پر مرہم رکھنے سے پہلے دلوں میں امید کے چراغ جلاتا ہے۔ آغا خان ہیلتھ سروسز، اسپتال، اور طبی ادارے اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ زندگی کو محض سانسوں کی گنتی تک محدود نہیں دیکھتے تھے، بلکہ اسے وقار، سہولت اور صحت کے ساتھ جینے کا حق سمجھتے تھے۔
ثقافت اور ورثے کی حفاظت ان کے نزدیک وہ قرض تھا، جو آنے والی نسلوں کو ادا کرنا تھا۔ وہ زمین کی زرخیزی کے قائل تھے، نہ صرف مٹی کی، بلکہ ذہنوں اور روحوں کی بھی۔ اسی لیے انہوں نے ثقافتی ورثے کی بحالی، تاریخی عمارتوں کے تحفظ، اور روایتی فنون کی سرپرستی کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ وہ جانتے تھے کہ قومیں اپنی جڑوں سے وابستہ رہ کر ہی تناور درخت بنتی ہیں، اور جب ماضی کی روشنی حال پر پڑتی ہے، تو مستقبل کے راستے خود بخود روشن ہو جاتے ہیں۔
آج، جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک کہکشاں خاموش ہو گئی ہو، جیسے وقت نے اپنی گردش میں ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر سوگوار ہونے کی اجازت لے لی ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روشنی بجھتی نہیں، وہ دلوں میں اتر جاتی ہے، اور ہمیشہ کے لیے ان ذہنوں میں زندہ رہتی ہے جو خواب دیکھنے، حقیقتیں تراشنے، اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی لگن رکھتے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کی زندگی ایک خدمت خلق کیلئے صدا تھی، جو وقت کی سرگوشیوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی، ایک ایسی خوشبو جو صدیوں تک فضاؤں میں بکھرتی رہے گی، اور ایک ایسا چراغ جو انسانی خدمات کی صورت میں پرنس کریم آغا خان کے پیروکار ان کے شاہی وارثین کبھی بجھنے نہیں گے۔