
تحریر! ضمیراحمدناز
بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جو حکمتِ عملی اختیار کی ہے، وہ محض انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی سیاسی اور معاشی سازش کارفرما ہے۔ ان پراجیکٹس کا اصل مقصد کشمیری عوام کو بے اختیار کرنا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے بھارت کی گرفت کو مضبوط کرنا اور خطے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے
اس پورے عمل میں کشمیری عوام کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، ان کے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے، اور انہیں ایک محکوم قوم میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم، سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک، صنعتی زون، سمارٹ سٹی منصوبے، اور فوجی چھاؤنیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ان تمام پراجیکٹس کے نتیجے میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین ختم ہو چکی ہے، جو کہ کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی۔ وادی کے کسان، جو صدیوں سے زراعت سے وابستہ تھے، بے زمین ہو کر مزدور بننے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جو زمینیں بچی ہیں، ان پر یا تو بھارتی کمپنیوں کا قبضہ ہے یا پھر وہ فوجی استعمال میں آ چکی ہیں۔ مقامی کسانوں کی ملکیتی زمینیں یا تو اونے پونے داموں ہتھیالی گئیں یا پھر انہیں حکومتی قوانین کے تحت "ترقیاتی ضروریات” کی آڑ میں زبردستی بے دخل کر دیا گیا۔
ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے جیسے دُلہستی، بگلیہار، کشن گنگا، اور رتلے ڈیم کا بظاہر مقصد بجلی کی پیداوار کو بڑھانا بتایا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان منصوبوں سے نہ صرف کشمیری عوام کو محروم کیا جا رہا ہے بلکہ بھارت ان ڈیموں کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر رہا ہے۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو موڑ کر زرعی زمینوں کو بنجر بنایا جا رہا ہے تاکہ مقامی کسان اپنی زمینوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کے علاوہ، ان ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی کشمیر کے بجائے بھارت کی دیگر ریاستوں کو فراہم کی جاتی ہے، جب کہ کشمیری عوام لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے بحران میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ ایک واضح استحصالی حکمتِ عملی ہے، جس کے ذریعے کشمیری عوام کو ان کے اپنے ہی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے۔
ریلوے نیٹ ورک اور قومی شاہراہوں کے منصوبے بھی کشمیری عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے بھارتی فوج اور مہاجر آبادکاری کے منصوبوں کو آسان بنانے کے لیے بنائے جا رہے ہیں ۔ سری نگر سے جموں تک چار لین ہائی وے اور ادھم پور-سری نگر-بارہ مولہ ریلوے لائن جیسے منصوبے بظاہر سفری سہولت کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر حقیقت میں ان کا مقصد بھارتی فوج کو مزید مضبوط کرنا اور غیر کشمیریوں کی کشمیر میں آبادکاری کو ممکن بنانا ہے۔ اس طرح، بھارت ایک منظم طریقے سے وادی میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کر کے ہندو آبادی کو بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
سمارٹ سٹی منصوبے اور صنعتی زونز بھی اسی استحصالی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ سری نگر اور جموں کو سمارٹ سٹی بنانے کے نام پر بھارتی حکومت نے بڑے پیمانے پر زمینیں ہتھیالی ہیں، جو زیادہ تر مقامی کشمیریوں کی ملکیت تھیں۔ یہ زمینیں اب بھارتی سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہیں، جو کہ غیر کشمیری ہیں۔ اس طرح، بھارت ایک طرف کشمیری عوام کو اقتصادی طور پر کمزور کر رہا ہے، اور دوسری طرف مقامی لوگوں کو ان کے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کر رہا ہے۔
بھارتی فوج کی جانب سے زرعی زمینوں پر قبضہ اور نئی چھاؤنیاں بنانے کا عمل بھی کشمیری عوام کو مزید بے اختیار کرنے کی ایک کڑی ہے۔ وادی میں ہزاروں ایکڑ زمین پر فوجی بیسز اور نو-گو ایریاز بنا دیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے مقامی لوگ اپنی ہی زمین تک نہیں جا سکتے۔ اونتی پورہ ائیر بیس، لداخ میں فوجی بیس، اور کپواڑہ میں نئی فوجی تنصیبات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو محض ایک فوجی زون میں بدل رہا ہے تاکہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے کچلا جا سکے۔
ان تمام پراجیکٹس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ چاول، گندم، میوہ جات، اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ کشمیر کی سب سے مشہور سیب کی صنعت بھی زوال کا شکار ہو چکی ہے، کیونکہ زراعت کے لیے درکار پانی، زمین، اور قدرتی وسائل یا تو ختم ہو چکے ہیں یا پھر ان پر بھارتی حکومت نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی کسان شدید مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ روزگار کے لیے دربدر ہو گئے ہیں۔
بھارت نے ان تمام اقدامات کے ذریعے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ زمینوں پر قبضہ، وسائل کی لوٹ مار، اور کشمیری عوام کو معیشت سے محروم کرنا اسی نوآبادیاتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے ، جو دنیا کی بڑی طاقتیں کمزور اقوام کو محکوم بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ بھارت ترقی کے نام پر کشمیری عوام کا استحصال کر رہا ہے، ان کی زمینوں کو چھین کر انہیں بے دخل کر رہا ہے، اور آبادیاتی تناسب کو تبدیل کر کے کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ سب کچھ صرف ایک طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد کشمیر پر بھارتی قبضے کو ناقابلِ واپسی بنانا ہے۔ اگر کشمیری عوام کی زمینیں ان سے چھین لی گئیں، ان کی معیشت تباہ کر دی گئی، اور انہیں بے بس اور بے اختیار بنا دیا گیا، تو مستقبل میں وہ بھارت کے خلاف کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے جس کے تحت بھارت ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں کشمیری عوام کو محکوم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک اور استحصالی پالیسی ہے، جس کے اثرات نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پورے خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے ترقی کے نام پر کشمیری زمینوں پر قبضے اور استحصال کے خلاف اہلِ جموں و کشمیر کو منظم، باشعور اور پرامن مزاحمت کرنی ہوگی۔ اپنی زمینوں کے تحفظ کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا، قانونی جدوجہد کرنا، اور عالمی سطح پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنا ناگزیر ہے۔
کشمیری نوجوانوں کو تعلیم، تحقیق اور سفارت کاری کے ذریعے اپنی آواز مؤثر انداز میں بلند کرنی ہوگی تاکہ دنیا بھارت کے نوآبادیاتی عزائم سے آگاہ ہو۔ ساتھ ہی، معاشی خود مختاری کے لیے مقامی معیشت کو فروغ دینا زراعت کو ترقی دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اگر جموں کشمیرکے عوام یکجہتی، حکمت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو بھارت کا جابرانہ تسلط زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا، اور وہ دن ضرور آئے گا جب کشمیر اپنے اصل وارثوں کو واپس ملے گا۔