
اسلام آباد۔۔۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ ملک نئے آزمائشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ معاملات سیاستدانوں کے حوالے کیے جائیں اور مذاکرات کیے جائیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی اچھی تجویز کو حکومت کو فراخدلی سے قبول کرنا چاہیے۔ ایک سال سے دیکھ رہا حکومت کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ ملکی سالمیت کی پالیسی ایوانوں میں نہیں بنائی جا رہی بلکہ بند کمروں میں بنائی جا رہی ہے۔ کے پی اور بلوچستان کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ۔ ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ دو صوبوں میں حکومت کی رٹ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ایک سال میں اس ایوان کی ہنگامہ آرائی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ حکومت چاہے نہ چاہے سپیکر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایوان کا ماحول بہتر رکھے ۔ پورا ملک اس وقت پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہے۔ عام آدمی کے پاس روز گار ہے نہ ہی جان و مال کا تحفظ ۔ یہاں پر ادارے اور محکمہ ملیا میٹ کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے فیصلے اقوام متحدہ میں ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمارا آئین و قانون غیر موثر ہوجاتا ہے معیشت کو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کنٹرول کرتا ہے ۔ اب آئی ایم ایف حکومت کی بجائے عدلیہ سے بات کررہا ہے۔ حکومت کا عدلیہ سے کیا سروکار ہے۔ ایٹم بم ہونے کے باوجود استعمال کرنے کا اختیار بین الاقوامی اداروں کے پاس ہوتا ہے ۔ دینی مدارس کے حوالے سے قانون پاس کیا تو کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی ادارے کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے اس حوالے سے صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی نہیں ہورہی۔ آج امریکہ نیتن یاہو کو سپورٹ کررہا ہے۔ صدام حسین کو لٹکایا جاسکتا ہے تو نتین یاہو کو پھانسی دینی چاہیے تھی۔ فلسطینی ابادی پر یہودی ابادی کا بوجھ ڈال دیا گیا