
تحریر ۔۔۔ مثمر عارف صدیقی
13 اکتوبر 2024 جب لمحوں میں زندگی کی کایا پلٹ گئی، جب کورنگی انڈسٹریل ایریا میں میری گاڑی کو پوليس نمبر پلیٹ SP-1915 کی بلیو لائٹ لگی سفید کرولا کار میں سوار مسلح افراد نے روکا اور اپنے آپکو سی ٹی ڈی اہلکار ظاہر کرکے مجھے اسلحے کے زور پر اغوا کرلیا اس دوران اپنی پوری طاقت سے مزاحمت کی جس میں مجھے اور اغوا کاروں کو ضربیں آئیں، اغوا کاروں کی تعداد زیادہ جو کہ غالباﹰ چھ تھے انہوں نے قابو کرلیا پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے گاڑی میں بیٹھا کر آنکھوں پر کپڑا باندھ دیا گیا اور ہاتھ نائیلون کی رسی سے،. اس دوران والد بھی ہمراہ زبردستی گاڑی میں سوار ہوگئے،. جنہیں کچھ دور گاڑی سے پھینک دیا گیا

اس کے بعد شروع ہوا اصل کھیل اور تشدد کا نا رکنے والا سلسلہ اس وقت بات سمجھ آئی کہ اغوا ہوگیا ہوں،. جب پیسوں کا تقاضا شروع ہوا اور مستقل لوگوں کو فون کر کے پیسوں کے انتظام کرنے کا کہا گیا،. گاڑی مجھے نہیں پتہ کہاں گھومتی رہی لیکن جو یاد رہا وہ ہونے والا تشدد اور پیسوں کا تقاضا۔۔۔ اس دوران بینک اکاؤنٹ ڈیٹیلز پوچھتے رہے اور دیگر تفصیلات بھی معلوم کرتے رہے پھر ۱ گھنٹہ گھمانے کے بعد گاڑی رکی اور ہاتھ اور آنکھیں بندھے ہی نیچے اتار دیا گیا اس وقت احساس ہوا کہ یہ کوئی ویران جگہ ہے
اس ویرانے کا اور ہلکی سی خنکی نے یہ. احساس دلایا کہ کراچی سے دور لایا گیا ہے۔ انکھوں سے کپڑا ہٹا اور ہاتھ کھلے تو سامنے اغوا کار کو پایا جس نے میرے ہی نائن ایم ایم کو میری ٹانگ پر رکھا ہوا تھا آنکھوں سے آنکھیں چار ہوئی اور دھم پہلی گولی ٹانگ میں پوائنٹ بلینک مار دی گئی ابھی سنبھل بھی نا پایا تھا کہ دھم دوسری گولی ہاتھ میں پوائینٹ بلینک ماردی گئی، اور کھڑے ہوتے ہی تیسری گولی بھی جسم میں اتار دی گئی جو ابھی تک جسم میں موجود ہے،. ہاتھ کی گولی آنکھوں سامنے جسم سے پار ہوتی دیکھی باقی گولیاں مار کر اغوا کار فرار ہوگئے اور میں سن جسم کے ساتھ جھاڑیوں میں پڑا تھا،. کچھ منٹ بعد حواس بحال ہوئے تو درد کی شدید لہریں جسم میں اتر رہی تھیں، ۲ گولیاں پار ہوچکی تھی خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے تیسری گولی ہڈی کو کرچی کرچی کر چکی تھی اور ٹانگ لٹکی ہوئی تھی،. کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن شدید درد کی وجہ سے کھڑا نا ہوسکا،. اطراف میں نظریں گھمائیں تو شدید ویرانی اور اندھیرا تھا سیدھے ہاتھ غور کیا تو دور روشنی کا احساس ہوا کہ جیسے گاڑیاں جا رہی ہیں اور کوئی شاہراہ ہے،. آیت الکرسی اور زکر الہی کے ساتھ اپنے آپکو گھسیٹنا شروع کیا منزل ابھی دور تھی لیکن اللہ نے ہمت اور حوصلہ دے دیا،. ایک گھنٹہ اور تقریبا ۱۰۰ سے ۱۵۰ میٹر اپنے آپکو گھسیٹتا رہا، اس امید کے ساتھ کہ زندگی ہوئی تو کوئی مدد کر دے گا،. وہ ایک گھنٹہ رات کے بارہ بجے کھلے آسمان تلے جھاڑیوں کے درمیان کچی سڑک پر درد، تنہائی،. خوف، تاریکی، امڈتی سوچوں کے ساتھ وہ ناقابل بیان ہیں موت کا تجربہ انسان کو مرنے پر ہی ہوتا ہے اور موت کیسی ہوتی یہ کسی کو نہیں پتہ،. اب آگے موت ہے یا زندگی اسکا اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا اس دوران کچھ موٹر سائیکل والے برابر سے گزرے لیکن ڈر کے مارے نا رکے،. ایک امید بندھتی اور اگلے لمحے ٹوٹ جاتی، مستقل خون بہنے ٹانگ ٹکڑے ہونے تکلیف اور گھسیٹنے سے نقاہت طاری ہونے لگی لیکن ہمت نا ہاری اور مستقل اپنے آپکو گھسیٹتا رہا مستقل ورد زبان پر جاری رہا،
اللہ سے کنیکشن ڈائیرکٹ ہوچکا تھا،. جیسے میرا رب میری باتوں کا جواب دے رہا ہے،. اور سڑک کے کنارے پہنچ گیا۔۔۔ اب ہمت جواب دے گئی گردن گھما کر دیکھا تو کوئی بندہ نا بندے کی ذات۔۔۔

اللہ سے دعاکی یا رب زندگی ہے تو کسی کو مدد کو بھیج دے اور اگر موت لکھی تو بس آسانی کردے اب بہت تکلیف میں ہوں،. سینے پر ہاتھ رکھا اور کلمہ کا ورد شروع کردیا،. انکھیں بند کیئے لیٹا تھا اور پھر اللہ کی مدد آگئی کہ کچھ لمحوں بعد کچھ رکشوں کی آوازیں آنا سنائی دی، اور ان فرشتوں صفت لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور فری پولیس اور ایمبولینس کو کال کیں،. معلوم کرنے ہر پتہ چلا رزاق آباد کا علاقہ بن قاسم موڑ پر پڑا ہوں چند لمحوں میں تھانہ ایس ایچ او موقع پر کھڑا تھا ضروری سوالات کے بعد ایس ایچ او نے موبائل میں ہی قریبی سٹی اسپتال منتقل کیا جہاں ابتدائی طبی امداد دی گئی، اس کے بعد بھینس کالونی موڑ سے جناح تک ایدھی ایمبولینس میں درد ناک سفر اور پھر آغا خان منتقلی تک چار گھنٹوں کا مرحلہ ہوش و حواس میں گزارا
آغاخان ہسپتال پہنچ کر ہوش نا رہا جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کے آپریشن کے لیئے لیکر جارہے پھر پانچ گھنٹے کا طویل آپریشن بخیر و خوبی انجام کو پہنچا جہاں ٹانگ میں راڈ ڈال دی گئی،. البتہ گولی نا نکل سکی اور باقی زخموں کو بھی آپریٹ کردیا گیا
اس کے بعد پانچ ماہ سے بستر درازی کا تکلیف دہ مرحلہ تاحال جاری ہے، اس دوران دوسری سرجری جو کہ نہایت تکلیف دہ تھی ۱۰ فروری کو ہوئی اور اب ۲۰ مارچ کو تیسری سرجری کا مرحلہ درپیش ہے حادثے کو گزرے پانچ ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا،۲ سرجری ہوچکی تیسری جمعرات کو طے ہے، اس دورانیہ میں ملزمان کے خلاف کاروائی تاحال ندارد
اس موقع پر اہنے اہل خانہ دوست احباب کا شکریہ جنہیں اپنے سے بہت قریب اور ہمیشہ فکر مند پایا،. جنہوں نے میری ہر قدم پر دلجوئی کی ہمت حوصلہ بڑھایا،
زندگی کی حقیقت اور دنیا کی بے ثباتی اس واقعے نے عیاں کردی،. اللہ نے مہلت دی تاکہ اس رب کے سامنے اپنے بہتر حال میں پہنچ سکوں، واقعی ایک کڑی آزمایش کا وقت ہے اللہ صبر و استقامت عطا کرے۔۔۔ اور ہر مسلمان کو حادثات اور ناگہانی سے محفوظ رکھے