
تحریر۔۔۔ مقصود منتظر
4 اگست 2019 کا دن بہت ہی بوجھل تھا۔ اس روز مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہر طرف سکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں اچانک اضافہ کر دیا گیا۔ دن بھر یہ قیاسآرائیاں عروج پر تھیں کہ کشمیر کے حوالے سے کچھ بڑا ہونے والا ہے ۔سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی یہاں کے سیاسی رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ۔ اسی رات پورے جموں و کشمیر اور لداخ میں تمام مواصلاتی نظام بند کردیے گئےاورانٹرنیٹ بھی بند کردیا کیا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آخر کیا ہونے والا ہے ۔ حتی کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی حکومتیں ،ادارے ، شخصیات، حکمران و سیاستدان صورتحال سے بے خبرتھے ۔۔۔ رات بھی ان ہی قیاس آرائیوں میں گزر گئی کی کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ لیکن کیا ہونے جارہا ہے ۔۔ سب کے سب بے خبر تھے ۔ یہاں تک کہ صبح کا سورج نکلا اور یہاں کے عوام کو پانچ اگست کے سانحہ کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا۔۔ یوں نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم ہوا بلکہ ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ خاموشی سے ہوا ؟ کیا بھارت نے اتنا بڑا فیصلہ یک دم کرلیا؟ پاکستان کا رول کیا رہا ۔۔ان سوالوں کے جواب تو مل چکے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ کہ کیا کشمیری کی سیاسی ، حریت اور عسکری قیادت اتنے بڑی تبدیلی سے بے خبر تھی ؟ سرسری جواب دیں تو جواب ہاں ہے لیکن کچھ سیانے تھے جو اس بھونچال کی نبض پہلے ہی جان چکے تھے ۔ کچھ سر ایسے ضرور تھے جن کے ذہنوں میں پہلے سے ہی اس طرح کے خدشات موجود تھے اور ان کا اظہار بھی کرتے رہے ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جس بھی کشمیری نے مسقتبل کے خدشات اورشبہات کا کہیں اظہار کیا اس کی زبان بندی کرلی گئی یا پھر ہمیشہ کیلئے ہی سلادیا گیا ۔۔ عبدالمجید ڈار بھی ایک ایسے کشمیری رہنما تھے جس نے پاک بھارت سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ذہنوں میں بنے والے کشمیر کے نئے خاکے کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا ۔ عبدالمجید ڈار کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر تھے ۔ وہ راوں تحریک کے اولین عسکری کمانڈروں میں سے ایک تھے ۔ وہ دوسروں سے اس لیے ممتاز تھے کہ وہ دور اندیش تھے ۔ تحریک آزادی کشمیر جب عروج پر تھی تب ہی مجید ڈار نے 5 اگست جیسی صورتحال کا خدشہ ظاہر کیا تھا یہی وجہ تھی انہوں نے 2000 میں حزب المجاہدین کے پلیٹ فارم سے سیز فائر کا اعلان کیا ۔ اس اقدام کی وجہ سے پہلی بار بھارت اور کشمیری قیادت فریق کے طور پر ایک میز پر بیٹھے لیکن افسوس کہ اس سلسلہ کا دوسرا راونڈ ہونے سے پہلے ہی پاکستان اور آزاد کشمیر میں عسکری اتحاد جہاد کونسل کی جانب سے احتجاج شروع ہوگیا جس کی وجہ سے بھارت اور کشمیری مجاہدین کے درمیان مذاکرات کا دوسر مرحلہ نہ ہوسکا ۔۔۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کشمیریوں نے بھارت کے سامنے خود کو فریق کے طور پر منوایا تھا ۔ اہم بات یہ ہے آج سے تئیس سال پہلے جس شخص نے بھارت کے عزائم اور پاکستان کی خاموشی کو بھانپ لیا تھا آج تئیس مارچ کو ان کی برسی ہے ۔۔۔
عبدالمجید ڈار کا تعلق شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جو مسلح تحریک کے برپا ہوتے ہی مجاہدین کا گڑھ بنا۔ تقریباً چار سال یہ پورا علاقہ کشمیری مجاہدین کے زیر کنٹرول رہا۔ یہ وہ دور تھا اور حال یہ تھا کہ قابض بھارتی فوج سوپور میں قدم نہیں رکھ سکتی تھی۔ ٹاؤن ہو یا گاؤں یا کوئی گلی کوچہ، ہر طرف فورس ٹین بوٹ، سبز رنگ کا قمیض شلوار پہنے اور ہاتھ میں کلاشنکوف اٹھائے نوجوان نظر آتے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مجاہدین ٹرینڈ سیٹر ہوا کرتے تھے۔ عام کشمیری نوجوانوں گوریلا جنگجوؤں کے ڈریس اور ہیر اسٹائل کو فالو کرتے تھے۔ اسی دور میں علاقہ زینہ گیر کے متعدد گاؤں کی وسیع اور سرسبز پارک نما نرسریوں میں مجاہدین کی باقاعدہ سلامی پریڈز ہوا کرتی تھیں۔
مجھے یاد ہے ایک بار چودہ اگست کو علاقائی دستوں پر مشتمل ہزاروں مجاہدین نے کمانڈر عبدالمجید کو سلامی پیش کی۔ یہ پریڈ انتہائی منظم اور پرجوش تھی۔ ہر جانب پیدل اور ٹرکوں میں سوار بندوقیں لہراتے اور نعرے لگاتے ہوئے مجاہدین کے قافلے چلے آرہے تھے اور فوج کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ یہ کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین موڈ تھا جب خالی نعروں اور ہوائی باتوں کے بجائے نیت خلوص اور کوئی ٹھوس پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں اور اس کے وکیل نے کشمیر کو آزاد کرنے کا سنہری موقع گنوایا۔
سنہ 2000 میں خود پر یقین رکھنے والےعبدالمجید ڈار اور دیگر آگے آئے اور بھارت سے براہ راست بات چیت شروع ہوئی لیکن یہ چیز اس وقت کے پاکستان کے پالیسی سازوں کو ناگوار گزری اور جہاد کونسل کے سربراہ سے سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کرایا۔
پھر معاملات بگڑ گئے اور مجید ڈار کو ان کی خود داری ، دور اندیشی اور ایک کشمیری کی حیثیت سے مظلوم قوم کے بہتر مستقبل کیلئے کچھ بہتر کرنے کی بڑی سزا ملی۔ 23 مارچ دو ہزار تین کو انہیں شہید کروایا گیا۔ ساتھ محکوم خطےکے باشندوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ خبردار، اپنے قد سے اونچا دیکھنے کی بھی کوشش کی۔ خبردار، اپنے دماغ کا زیرو اعشاریہ زیرو زیرو نائن حصہ بھی استعمال کیا۔ آنکھوں کو اپنے خواب کا قبرستان بناؤ، اور آزادی کی خواہش کوسینے میں ہی دفن کرو۔۔۔۔ کشمیر لبریشن مومنٹ ہر سال عبدالمجید ڈار کو ان کی برسی پر خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ان کی دور اندیشی کو سلام پیش کرتی ہے ۔۔۔۔