
تحریر:ملک عاطف خٹک
ویسے تو قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دے کر بھی جھوٹ بولنے والوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرسکتا ہوں لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا
بقول جون کے، کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا کے مصداق اب گراؤنڈ ریلٹی یہ ہے کہ سیاست سے جڑے لوگ خدا سے کم از کم نہیں ڈرتے اور وہ سیاست کو جنگ سمجھ کر اس میں سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔
زمینی حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ 9 مئی پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ایک ردعمل تھا جو شاید فطری تھا۔ اس نہج پے احتجاج کو نہیں لے جانا چاہیئے تھا مگر ہوا اور اس نے پاکستان کو سکوت ڈھاکہ کے بعد سب سے گہرا زخم دیا۔۔
یہ محض سننے میں عام سی بات لگتی ہے لیکن درحقیت یہ پاکستان کی بنیاد ہلانے کے مترادف تھا کہ آرمی کے ہیڈکوارٹرز اور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کیا گیا، حساس تنصیبات جلائیں گئیں، ریڈیو
پاکستان سمیت بہت کچھ جلایا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ مشتعل ہجوم کو روکنا ناممکن تھا، شاید بہت نقصان ہوتا اور قیمتی جانیں جاتیں اگر کوئی ردعمل دکھایا گیا ہوتا۔
خود 7 کلومیٹر میں دفتر سے دور ہوتے ہوئے گھر سے باہر رات گزاری اور اگلی رات بھی بہت مشکل سے آنسو گیس زدہ فضا میں دم گھٹتے گھر پہنچا۔ باقی سب آپ کے سامنے تھا اور ملک گویا اسٹیک پر لگ گیا تھا۔ میں نے اسی دن کہا تھا کہ احتجاج تاریخی ہے اور اگر یہ پرامن رہا تو فوج کا ہمیشہ سے سیاست سے پتہ کٹ جائے گا مگر افسوس کہ پی ٹی آئی کی سیکنڈ اور تھرڈ لیڈرشپ اس صورت حال کو قابو نہ رکھ پائی اور کسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں انہوں نے ورکرز کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچایا اور ہم سانحے کے بعد سانحے کا سنتے رہے۔
جو کچھ ہوا،وہ افسوس ناک، شرمناک، قابل مذمت اور قابل نفرت تھا۔ ہم امید لگائے بیٹھے کہ ذمہ داران کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے گا اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے گا۔ خوف کی فضا ایسی قائم ہوئی کہ چند دنوں کی خاموشی نے ایک لکیر کھینچی اور ہر ذمہ شعور سمجھنے لگا کہ اب نہیں تو کب۔ اب ریاست ایک نیا سفر شروع کرے گی۔ حساب اور احتساب یقینی بنایا جائے گا اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا لیکن ہائے اس زود پشمیاں کا پشمیاں ہونا۔
میری طرح کتنے کے ارمان اس وقت آنسو میں بہہ گئے جب ریاست نے اس سانحے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔ بجائے اس معاملے میں قانون کی حکمران قائم کرنے کے، ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنایا گیا اور اس سے جڑے رہنا جرم بنا دیا گیا، قصور واروں کو پکڑنے کے بجائے پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے ایک بیانیہ بنایا گیا اور پھر چشم فلک نے وہ بھیانک دن دیکھا کہ لوگ اس پروپیگنڈا کو سچ سمجھنے لگے کہ 9 مئی ایک فالز فلیگ آُپریشن تھا۔
ہو نہ ہو جب آپ ایک سرکس لگائے اور توک کے حساب سے سیاسی ورکروں اور رہنماؤں کو پریس کلبوں کی طرف ہانک دے اور ان سے 9 مئی کی مذمت اور پی ٹی آئی چھوڑنے کا بیان دلوا کر انہیں معصوم بناتے جائیں تو سوالات نے جنم لینا تھا اور سچ نے دفن ہونا تھا۔ آپ نے سچائی میں ملاوٹ کرکے اپنی ساکھ خراب کی اور اس میں میڈیا کو بھی ناقابل اعتبار اور بے وقعت کیا۔ آج حالت یہ ہے کہ سب دستاویزی ثبوت ہوتے ہوئے آپ کو جھوٹا اور پی ٹی آئی کو سچا قرار دے رہے ہیں۔
جرم بڑا تھا لیکن اس کو ڈیل اس سے بھی بہت برے طریقے سے کیا گیا۔ موجودہ مشکل حالات میں جب میرا پاسپورٹ نہیں، تو سوچتا ہوں کہ کن کے سہارے فیصلہ کر بیٹھا تھا کہ حالات جو بھی ہوں، پاکستان سے باہر نہیں جاوں گا۔ کیسے کوئی ان فیصلہ اور منصوبہ سازوں پر اعتبار کرے جنہوں نے ایک سانحے کو اپنی انا اور تسکین کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے سیاسی مقاصد حاصل کیے۔ میرے بھائیوں۔۔پی ٹی آئی نے ظلم کیا تھا مگر آپ لوگوں نے تو یذیدیت کی۔