
تحریر:ارسلان سدوزئی
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ایک ایسی صدی میں جس کی صرف دو دہائیوں میں دنیا میں بہت کچھ بدل گیا۔۔ بیسویں صدی کل کی بات ہے لیکن ماضی اور موجودہ صدی کو موازنہ کرکے یوں لگتا ہے کہ کئی زمانےبیت گئے۔ کیونکہ انسان کے اصول بدل گئے ،اقدار بدل گئے، اچھے غلط اور سچ جھوٹ کی تمیز بدل گئی۔ لفظوں کے معنی بدل گئے ،حروف کے اشارے بدل گئے۔ معاشرے بدل گئے ،معاشرے کے اقدار بدل گئے۔ غرض کیا نہیں بدلا ۔۔
قارئین!!!
ہم اس صدی میں زندہ ہیں جہاں سیکس مفت ہے اورسچی محبت دستیاب نہیں ۔
ہم اس صدی میں سانسیں لے رہے ہیں جس میں ایک موبائل فون کا کھونا اپنے کنوارے پن کی قربانی سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔
ہم اس صدی کے باشندہ ہیں جس میں جدت کا مطلب ننگا ہونا ہے ،اگرآپ سموکر نہیں یا شراب نہیں پیتے ہیں تو آپ دقیانوسی ہیں اور فیشن کا کچھ پتا نہیں ۔
ہم اس زمانے میں سانس لے رہا ہوں جہاں اگر ساتھ والے کو دھوکہ نہ دیں تو آپ ہوشیار نہیں ۔ آپ سائیں ہیں اور کسی کام کے نہیں۔
ہم اس صدی کے انسان ہیں جس میں باتھ روم فوٹو اسٹوڈیو ہیں اور عبادت گاہیں ڈیٹنگ پوائنٹ ہیں۔
یہ سوشل میڈیا کی صدی ہے ۔ لوگ اپنوں سے زیادہ غیروں کی خبر رکھتے ہیں۔
کیا ہوا جو خدا کی عبادت کرنا مشکل اور حمل گرانا آسان ہے ۔
کیا ہوا جو اب لڑکے اور لڑکیاں شادی کرنے سے تو ڈرتے ہیں لیکن جسنی تعلقات استوار کرنے پر فخر کرتے ہیں۔
ہم جدت کے نام پر ننگے ضرور ہو رہےہیں لیکن حقیقت کا پردہ پھٹا تو نظر آیا کہ انسانیت اخلاقی اقدار کی تنگ گلی میں کھڑی ہے ۔
یہ وہ صدی ہے جس میں ضمیر کے سودے ہو رہےہیں انصاف بکتا ہے۔ شرافت کی کوئی قدر نہ قیمت ہے۔ ایمانداری اور دیانداری کا گویا زمانہ نہیں۔
اور انسان سہولت کے لیے ضمیر بیچنے کو کھڑا ہے ۔انسان زمین و آسمان کے خالق کی بجائے دوسرے انسانوں کی عبادت اور تعریف کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ زر،زن اور زمین کی صدی ہے ، یہ جدت کی صدی ہے۔ جس میں انسان جسمانی اور اخلاقی طور پر ننگا ہورہا ہے۔۔یہ وہ صدی ہے جس میں انسانیت سسک رہی ہے اور انسان بشرموں کی طرح ہنس رہا ہے،
یہ وہ صدی ہے جس میں انسان مارس اور دیگر سیاروں کی کھوج میں ہے اور زمین انسان کو کھوج رہی ہے۔۔