
تحریر ۔۔۔ محمد انصر صدیق خواجہ
پاکستان کے ایک نجی زلزلہ پیشگوئی ادارے نے،پاکستان،ترکی،یونان،میانمار،افغانستان میں زلزلوں کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے ان کے ادارے کی پیش گوئی کے مطابق آنے والے دنوں میں میانمار میں 5.3شدت،ترکی میں 4.8اور یونان میں 5.0شدت کے زلزلے آ سکتے ہیں ان کا یہ دعوی بھی ہے ”کہ ای کیو کیو ایم“ کا جدید سسٹم زلزلوں کی 128گھنٹے پہلے یشگوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کی تمام گزشتہ پیش گوئیاں درست ثابت ہو چکی ہیں
بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہُ لا شریک ہے اور غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں زلزلے کب آئیں گے کہ یہ صرف اللہ کی ہی ذات جانتی ہے،اللہ تعالیٰ نے کل انسانیت کو ایک آدم علیہ السلام کی نسل سے جنم دے کر پہلے دن سے ہی سماجی انصاف کی بنیاد رکھ دی تھی اس بات کو قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے
ترجمہ”،لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد عورت دنیا میں پھلا دیئے“،اور اسی سماجی انصاف کو حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں یوں بیان کر دیا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو آدم مٹی سے بنے ہیں بس کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں تو اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو،زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہو جانے،اور آسمان پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذبوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو ہے درپے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں،وہ باتیں یہ ہیں جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے،علم دین،دنیا کے لئے حاصل کیا جائے،انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرئے،اور ماں کی نافرمانی کرئے،دولت کو قریب کرئے اپنے ماں باپ کو دور کرئے،مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے،قوم کی قیادت فاسق و فاجر کرنے لگیں،،انسان کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے،گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے،شاب و شراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں،
قارئین کرام انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیں مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے جو اب تک نہیں پائی گئی ہو تو پھر اللہ کی آزمائش کے لئے تیار رہنا چاہیے،
قرآن کریم میں قوم شعیب پر عذاب آنے کا تذکرہ ناپ تول میں کمی پیشی بتائی ہے اس قوم کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو ذیادہ لیتے اور دینے کے وقت کمی کر دیتے،کیا ہمارے معاشرے کے اندر یہ برائی موجود نہیں بازاروں کے اندر جائیں اور جائزہ لیں کہ اوزان پیمائش درست سمت ہیں۔۔۔؟ کیا آج حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کمی پیشی نہیں ہے؟
مظفرآباد پلیٹ کی رہائشی ایک خاتون نے جملہ ریکارڈ کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں انصاف کے لئے چیخ وپکار کی ہے،اور منصف کا نام لے کر انصاف کی بھیک مانگی ہے،ہم اس کی تصدیق و ترید میں جائے بغیر صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ آخر کہیں تو اس نظام کے اندر لیگج ہے کہ خاتون چیخ چیخ کر اپنی کہانی بیان کر ہی ہے،ہم تو اس نبی کو ماننے والے ہیں جنھوں نے انصاف کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اس خاتون کی بے بسی پر ہم تو بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ
بے گناہ ہونے سے کچھ نہیں ہو گا
ثبوت دیچئے رونے سے تو کچھ نہیں ہو گا
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہمارے انصاف کے نظام میں غریب انسان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ صرف گواہوں اور ثبوت پر انحصار کرتے ہیں اور یقین جانئیے گواہ ہمیں چند پیسوں کے عوض انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے باہر سے ہمہ وقت مل جاتے ہیں اس بارے حقائق چشم کشا ہیں
معاشرے کے اندر اس وقت بے انصافی کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ بندہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ لگتا ہے ”تجھے مرنا نہیں“،جس کا بس چلتا ہے دوسروں کی حق تلفی اور دو نمبری سے باز نہیں آتا،با ا ختیار طبقات کی بے انصافیاں قابل دید ہی نہیں قابل عبرت بھی ہیں،لوگ ڈھیٹ ہو چکے ہیں،ہر چیز یہاں بکتی ہے،ضمیر بک جائے تو کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے،خدا کا خوف اٹھ چکا ہے،نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے سڑکیں ناپ رہے ہیں نظر کرم تو ان پر ہے جو سفارش کی بنیاد پر بھرتی ہوا جس کا چاچا ماما نظام میں بااثر ہے،وہی اہل ہے،ہر کردار گھٹیا ہو چکا ہے، قابلیت،میرٹ،جذبہ،علم بے معنی ہو چکا،آدائیں اور سفارش نااہلوں کو وہاں پہنچا سکتی ہے جہاں کوئی شریف انسان پہنچنے کا تصور نہیں کر سکتا،بے انصاف معاشرے میں سفارش اور گھٹیا کردار سے مفادات اور شہرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن عزت حاصل نہیں کی جا سکتی
اللہ پاک نے جیتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں وہ سب کی سب انسان کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ بس انصاف سے کام لیا جائے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیازلزلے کے اثرات محسوس کر رہی ہے ہمیں دعاو استغفار،صدقہ خیرات اور ترک معاصی کا اہتمام کرنا چاہئے،زلزلے اور قدرتی آفات سے بچاو کا ایک ہی حل ہے کہ ہم اجتمائی طور اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم سے حقوق العباد میں کمی پیشی نہیں تو نہیں ہو رہی،معاشرے کے اندر جاری ظلم کے خاتمے کا واحد حل اپنے گریبان میں جھانگیں سے نظر آئے گا،اور اس وقت سے ڈرا جائے جب اللہ پاک حقوق العباد بارے سوال کرئے۔