

حال ہی میں ایک بار پھر جنوبی ایشیاء کی فضا میں جنگ کی بو محسوس کی گئی، جب بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو بنیاد بنا کر پاکستان کو دریا کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔ بظاہر یہ ایک فنی و ماحولیاتی نوعیت کا تنازع دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بیان ایک جارحانہ رویے کا اظہار ہے، جو نہ صرف دو ممالک بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ پانی، جو کہ انسان کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے، جب اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے، تو اس کا مطلب صرف ایک اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کی ہے۔ یہ معاہدہ 1960 میں ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا، جس کے تحت تین مشرقی دریا بھارت کو اور تین مغربی دریا پاکستان کو دیے گئے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ بھارت کے حالیہ بیانات اور بعض یکطرفہ اقدامات نے خطے میں بے چینی پیدا کی۔ پاکستان نے نہایت ذمہ داری اور وقار کے ساتھ ان دھمکیوں کا جواب دیا۔ دفاعی اداروں نے واضح پیغام دیا کہ ملک کی خودمختاری، پانی، فضائی حدود یا سرزمین پر کسی قسم کی جارحیت ہوئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہے۔ اس کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ فضائیہ نہ صرف تربیت میں اعلیٰ ہے بلکہ حالیہ برسوں میں جدید ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہوئی ہے۔ 2019 میں بھارت کو فضائی حدود کی خلاف ورزی پر منہ کی کھانی پڑی، جب پاکستان نے نہ صرف بھارتی طیارہ گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو گرفتار کر کے، بعد ازاں امن کا پیغام دیتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ یہ اقدام پاکستان کے ذمہ دارانہ کردار کا عملی مظہر تھا، جس نے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں، لیکن دفاع میں کوتاہی بھی نہیں کرے گا۔
جنگ کے ممکنہ فائدے اور نقصانات پر نظر ڈالی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ فائدے بہت کمزور اور وقتی ہوتے ہیں، جبکہ نقصان نہ صرف شدید بلکہ دیرپا ہوتا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق جنگ سے حکومتیں وقتی مقبولیت حاصل کر سکتی ہیں، دفاعی صنعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، یا قومی بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے، لیکن یہ فائدے لاکھوں جانوں کے نقصان، معیشت کی تباہی، بنیادی ڈھانچے کی بربادی اور انسانی المیوں کے سامنے کچھ نہیں۔ جنگ کی صورت میں پاکستان اور بھارت دونوں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا۔ غربت میں اضافہ، مہنگائی میں شدت، خوراک اور پانی کی قلت، صحت کا بحران، اور لاکھوں افراد کی نقل مکانی جیسے حالات جنم لے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنوبی ایشیاء پہلے ہی دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں غذائی قلت، پانی کی کمی اور ماحولیاتی چیلنجز سب سے زیادہ ہیں۔ اگر ان مسائل کے حل کے بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا گیا تو دونوں ممالک کی آئندہ نسلیں بدترین بحران کا سامنا کریں گی۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے، چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا لائن آف کنٹرول کی صورتحال۔ اقوامِ عالم کے سامنے پاکستان نے ہمیشہ دلیل، سفارت کاری اور عالمی قوانین کی روشنی میں بات کی ہے۔ لیکن جب پاکستان کے دفاع، سلامتی یا بقاء کی بات آتی ہے تو پوری قوم ایک آواز ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا حالیہ ردعمل بھی اسی توازن کی علامت ہے۔ نہ جذباتی ردعمل، نہ خاموشی؛ بلکہ حقائق پر مبنی، پراعتماد، اور بھرپور تیاری کے ساتھ ایک واضح پیغام کہ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن جنگ مسلط کی گئی تو اس کا جواب فیصلہ کن ہوگا۔
اسی تناظر میں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض قوتیں اس حساس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اسے ریٹنگ اور شہرت کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا اور ان کے وی لاگرز نے جنگی ہسٹریا کو فروغ دیا۔ ٹی وی چینلز پر میزبان جنگی لباس پہن کر بیٹھتے ہیں، میزائلوں اور ٹینکوں کی تصویریں پس منظر میں چلا کر عوام کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔ یوٹیوبرز نے تو جذبات فروشی کی حد ہی کر دی ہے، اور ایٹمی جنگ کی باتیں محض کلک اور ویوز کے لیے کرنے لگے ہیں۔
انہیں نہ انسانی جانوں کی پروا ہے نہ عوامی یا مالی نقصانات کا کوئی احساس۔ ان کا اصل مقصد صرف اپنے چینلز کو بوسٹ اپ کرنا، ریٹنگ حاصل کرنا اور اشتہارات کے ذریعے کمائی بڑھانا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ خطرناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے، جو خطے کے امن کو مزید داؤ پر لگا رہا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا مطلب صرف میدانِ جنگ میں تصادم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے خطے کے 1.5 ارب لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا، جو کہ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہوگا۔ عوام کو چاہیے کہ جنگی جنون اور جذباتیت کے بجائے ہوش مندی، تحقیق اور آگہی کے ساتھ اپنے مؤقف کو تشکیل دیں۔
امن، دریا کے بہاؤ کی طرح ہوتا ہے – خاموش، مسلسل اور زندگی دینے والا۔ جب پانی کا بہاؤ روکا جاتا ہے، تو زندگی مرجھا جاتی ہے۔ یہی حال امن کا ہے۔ جنگ صرف زمین نہیں جلاتی، دلوں کو بھی راکھ کر دیتی ہے۔ اس لیے عقل، انصاف اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک مسائل کا حل مذاکرات، مکالمے اور عالمی قوانین کے تحت نکالیں۔