
تحریر ۔۔۔۔ سید نذیر گیلانی
22 اپریل 2025 کے پہلگام کے سانحے کے بعد بھارت نے جو اقدامات پاکستان کے ساتھ کئے، ان میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان بڑا اقدام ہے۔ upper riparian کا lowe riparian کو ایک معاہدہ ہوتے ہوئے پانی روکنا در اصل جنگی اقدام act of war قرار پاتا ہے۔ حکومت پاکستان جوابی کارروائی اور دوسرے مناسب اقدامات میں مصروف ہے۔ کشمیر(ریاست جموں وکشمیر) کے لوگ اور پانی کا قانون سمجھنے والے دوسرے لوگ بھی آج کے مہذب معاشرے میں، بھارت کی اس کاروائی کو رد کرتے ہیں۔
ہر مہذب انسان آج کے دور میں پانی کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کرنے کی سوچ کو رد کرے گا۔ یہ پانی کشمیر کا ہے اور انڈیا نے یہ پنڈورا بکس Pandora Box کھول ہی دیا ہے۔ کشمیریوں کا آج تک یہ شکوہ اور رونا دھونا رہا ہے کہ اصل فریق کشمیری اس معاہدے میں نہ شریک ہیں اور نہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔
اب بھارت نے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ کشمیریوں اور ان کی حکومت اور قیادت کو ایک قدرتی موقع میسر ہوا ہے کہ وہ بحیثیت ایک فریق سامنے آئیں۔ کیا کشمیری قیادت کی سامنے آنے کی نیت ہے؟ اگر نیت ہے، تو کیا ان میں موقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ دو اہم سوال ہیں۔
کہتے ہیں لنگڑے کے پاس بہانے بازی کا ایک ڈھیر ہوتا ہے۔
عذر لنگ را بہانہ بسیار است، تا نرود، گوید کہ پایم لنگ است
کشمیری نقبہ Nakba
بھارت نے پہلگام کے سانحے کو بہانہ بناکر کشمیریوں کے نقبہ (ریاست بدری) کی بنیاد ڈالی ہے۔ عورتوں، بزرگوں اور شوہروں اور بیویوں اور بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے پولیس تھانوں میں جمع کرکے، پولیس گاڑیوں اور دوسری ٹرانسپورٹ کے ذریعے، واہگہ بارڈر پر لا کر ، پاکستان کی حدود میں دھکیل دیا جارہا ہے۔ فلسطینی نقبہ طرز کا یہ کشمری نقبہ ہے اور ہم، بحیثیت ایک کشمیری حکومت، کشمیری قیادت اور بڑے Diaspora کے ہوتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں۔ اور out of context کاروائیاں کر رہے ہیں۔
جس ریاست نے اقوام متحدہ کے Nominated منتظم برائے رائے شماری کو formally تعینات کرنا تھا، انڈیا نے اسے unlawfully توڑ دیا۔ یو این کی ٹمپلیٹ کے تحت جس ریاست نے displaced ریاستی باشندوں کو واپس بلانا تھا، آج اسی ریاست کے مرد و خواتین کو جبری طور ریاست بدر کیا جا رہا ہے۔ یہ کام پچھلے کچھ دنوں سے جاری ہے۔ ماؤں کو بچوں سے جبری علاحدہ کرکے پولیس گاڑیوں میں سوار کرکے، واہگہ بارڈر پر لے جانے والے مناظر کشمیر میں 1846 سے لے کر اپریل 2025 تک پہلی بار دیکھے گئے۔ آسمان بھی رو رہا ہے۔ ہماری پیشانی پر احساس کے پسینے کا ایک قطرہ بھی نہیں۔
پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے۔ پاکستان قضئیہ کشمیر میں فریق ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان کی کشمیری نقبہ کا نوٹس لینے کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم نے پاکستان کی حکومت کو اس کی UNCIP RESOLUTIONS کے تحت سنبھالی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانی ہے؟
لیکن بنیادی ذمہ داری حکومت آزاد کشمیر، کشمیری قیادت اور کشمیری Diaspora کی ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ آج تک ہماری قیادت political ineptitude اور evasion کا شکار رہی ہے۔ ہماری قیادت political misconduct اور dereliction of representative responsibility کی مرتکب رہی ہے۔ اس کے consequences ہونگے۔
ہندوستان کی انتظامیہ نے کشمیریوں کے گھر بھی مسمار کرنے شروع کئے ہیں۔ اس ہفتے 10 گھر مسمار کر دئے گئے۔ ایک نسل کی موت، ریاست کے ٹوٹنے، کشمیریوں کے Disenfranchise ہونے، بنیادی حقوق سے محروم ہونے، گھر مسمار ہونے اور اب جبری ریاست بدری، کی ایک constructive liability بنتی ہے۔ اس constructive liability کے ذمہ داران کی نشاندہی یہاں مناسب نہیں۔ لیکن کرنی ہوگی۔
یہ لوگ بھی اسی طرح مجرم ہیں، جس طرح بھارتی انتظامیہ۔
بھارتی افواج کی بھی civil اور criminal liability ہے۔ ان افواج کو کشمیر میں conditional admission دیا گیا ہے۔ اور ان کا ایک limited mandate ہے۔ لیکن یہ temporary اور conditional موجودگی ایک permanent اور punitive occupation میں بدل گئی ہے۔ اس کا تذکرہ اقوام متحدہ کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس میں موجود ہے۔ ہم تو ان رپورٹس میں موجود سنگین غلطیوں کی درستگی کرانے کی صلاحیت بھی ثابت نہ کر سکے۔ نہ ان رپورٹس سے فائدہ اٹھا سکے۔
کشمیریوں کے خلاف use of force اور collective punishment اصل میں، crimes against humanity کی تشریح میں آتے ہیں۔
اس لئے، حکومت آزاد کشمیر، منتخب ارکان اسمبلی، کشمیری قیادت (الحاق پاکستان اور خود مختار ریاست کے حامی)، سول سوسائٹی، کشمیریوں کی ہمدرد constituency اور Diaspora کے علاوہ ہر ذمہ دار کشمیری پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ، لمحہ موجود میں درپیش چیلنجز بالخصوص کشمیری نقبہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔۔۔
سوشل میڈیا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ لیکن ذمینی، ہوائی اور بحری جنگ کے ہتھیار اور پروٹوکول ایک نہیں ہوتے۔ کشمیر کیس کا بچاؤ اور حل ہم تھک ہار کر، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تلاش کرتے ہیں۔
لیکن ہم، اظہار اور اعلان کے بعد عمل کا قدم نہیں بڑہاتے ۔ اپنے مضبوط کیس کی جیورسپروڈنس کی غلط تشریح کرتے کرتے، اب کشمیر میں گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنتے دیکھ رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد کشمیری خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کے قافلے (چھوٹے ہی سہی) چشم فلک دیکھ رہی ہے۔ ہمیں نظر نہیں آتے۔ کیا ہم واقعی بے دید ہو چکے ہیں؟