
تحریر۔۔۔۔ شہریار خان
کچھ عرصہ پہلے میرے بیٹے کا کراٹے کی پریکٹس کے دوران کندھا اتر گیا۔۔ اسے گھر سے قریب واقع پرائیویٹ ہسپتال ’شافی ہسپتال لے گئے۔۔ وہاں ایکسرے کروایا تو وہ 1400روپے کا تھا، کنسلٹنٹ کی فیس غالباً 1000، پھر کندھا چڑھانے کے پروسیجر کی فیس ساڑھے سات ہزار روپے۔۔ مجموعی طور پر ہسپتال سے باہر آنے سے پہلے تقریباً 14000روپے ادا کیے۔۔ کوئی بات نہیں کہ اپنی اولاد کے لیے ہی کماتے ہیں۔۔
اس کے کچھ عرصے بعد دوبارہ دوسرے بازو میں تکلیف ہوئی تو اسے الخدمت رازی ہسپتال لے گئے۔ ہسپتال وہ بھی بہت اچھا ہے مگر وہاں اخراجات بہت معمولی ہوئے۔۔ خوشی ہوئی اور بے انتہا خوشی ہوئی کہ کہیں کوئی ڈاکٹرز انسانیت کے جذبہ کے تحت بھی کام کر رہے ہیں۔۔
گزشتہ شب بیٹے کا کندھا دوبارہ اتر گیا۔۔ ہم اس وقت راولپنڈی میں تھے وہاں قریب کینٹ ہسپتال تھا وہاں لے گئے تو انہوں نے صاف بتا دیا کہ جناب یہاں کوئی آرتھوپیڈک معالج موجود نہیں آپ بچے کو ڈی ایچ کیو لے جائیں۔۔
میں پہلے ہچکچایا پھر گاڑی وہاں موڑ لی۔۔ تین سے چار منٹ میں پرچی بنی، وہاں سے ایمرجینسی میں ڈاکٹر نے فوری طور پر دیکھا پھر ایکسرے کروایا اور ایکسرے دیکھنے کے بعد کمرہ نمبر بائیس میں پہنچے تو وہاں لیڈی ڈاکٹر تھیں جنہوں نے ایکسرے دیکھتے ہی فوری طور پر بیٹے کو کرسی پہ بٹھایا اور بچے سے بات کرتے کرتے کندھا چڑھا بھی دیا۔۔ بیٹے کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر میں بھی خوش ہو گیا۔۔
یہ کام دس سے پندرہ منٹ میں ہو گیا۔۔ اور ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔۔ ہسپتال بھی صاف ستھرا تھا۔۔ وہاں میری موجودگی میں جتنے بھی مریض آ رہے تھے انہیں ادویات، سرنج یا پٹی بھی ہسپتال سے ہی دی جا رہی تھی۔۔
کہا جا رہا ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت ہسپتالوں کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہے جو میرے جیسے تمام شہریوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔۔ خدا کرے کہ تمام سرکاری ہسپتالوں کا معیار ایسا ہی ہو جائے تاکہ شفا انٹرنیشنل، علی میڈیکل اور اسپیشلسٹ کلینک جہاں عوام کی کھال اتاری جاتی ہے لوگ انہیں چھوڑ کر ان سرکاری ہسپتالوں میں آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائٹرشہر یار خان پاکستان کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں ۔ آجکل سنو ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں